معروف اداکارہ، مصنفہ اور سابقہ صحافی میرا سیٹھی کا ویڈیو کلپ تیزی سے وائرل ہو رہا ہے جس میں وہ اپنے ساتھ پیش آئے جنسی نوعیت کے ایک تکلیف دہ واقعہ کا ذکر کر رہی ہیں۔ یہ کلپ ان کے یوٹیوب چینل دیسی ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو کا ہے جس میں وہ اکثر تنازعات کا شکار رہنے والے معروف سوشل میڈیا اور ٹی وی سٹار مورو کا انٹرویو کر رہی ہیں۔ انٹرویو کے دوران معاشرے میں پدر شاہی کے تحت جنم لینے والی نقصان دہ معاشرتی اقدار کے حوالے سے گفتگو کے بیچ میرا سیٹھی نے یہ واقعہ سنایا۔ میرا سیٹھی نے بتایا کہ کچھ ہی دن قبل وہ ٹینس کھیل رہی تھیں کہ ٹینس کورٹ کی باونڈری پر ایک نا معلوم شخص آیا اور اسنے شلوار اتار کر مشت زنی شروع کردی۔ انکا کہنا تھا کہ وہ ان سے کافی فاصلے پر تھا تاہم یہ انکے لیئے انتہائی ناگوار اور تکلیف دہ تھا۔ اس حوالے سے انہوں نے کوچ کو بتایا تو وہ اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر چل دیئے۔ کسی نے کچھ نہ کیا۔ میرا نے سوال کیا کہ اس معاشرے میں گھٹن کیوں ہے؟ اس پر مورو نے کہا کہ شاید یہ مردانہ ہارمون ٹیسٹو سٹیران کا قصور ہے جو مردوں کو جارح مزاج بناتا ہے جب کہ میرا سیٹھی کے مطابق یہ معاشرتی نشو و نما ہے جو کہ ایک انسان کو مطالب و دنیا فہمی عطا کرتی ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنے رویئے تخلیق کرتا ہے۔
سال 2020 میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات کئی روز بلکہ مہینوں خبروں میں موجود رہے۔ ان میں موٹروے ریپ کیس سب سے اہم ہے جس میں لاہور سیالکوٹ موٹروے پر خاتون کو پٹرول ختم ہونے پر رکنا پڑا اور اس دوران دو ملزمان نے انہیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت یومیہ 11 خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہو رہی ہیں۔ یہ تعداد پولیس اور دیگر اداروں کے پاس درج ہونے والی شکایات سے اخذ کی گئی ہے۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2015 سے اب تک مجموعی طور پر جنسی زیادتی کے 22 ہزار 37 مقدمات درج ہوئے جن میں سے چار ہزار 60 مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اب تک 77 مجرموں کو سزائیں ہوئیں اور صرف 18 فیصد کیسز پراسیکیوشن کی سطح تک پہنچے ہیں۔
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ساحل کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہر روز 9 سے زیادہ بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 60 فیصد کیسز میں بچے کو ہراساں کرنے والے قریبی لوگ یا خاندان کے افراد ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ کو 91 اخبارات کی رپورٹس کو مانیٹر کرنے کے بعد مرتب کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال 2017 میں بچوں کے اغوا کے 1039 واقعات سامنے آئے جبکہ لڑکیوں کے ساتھ ریپ کے 467، لڑکوں کے ساتھ ریپ کے 366، زیادتی کی کوشش کے 206، لڑکوں کے ساتھ اجتماعی ریپ کے 180 اور لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی ریپ کے 158 واقعات رپورٹ ہوئے۔