معروف خاتون سائیکلسٹ ثمر خان نے بدھ کی شام ٹوئٹر اور فیسبک پر ایک ویڈیو اپلوڈ کی جس میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح وفاقی دارالحکومت کی ایک چلتی سڑک پر فیض آباد انٹر چینج کے قریب ایک شخص نے انہیں پکڑ کر، ان کے جسم پر ہاتھ پھیرا اور وہاں سے تیزی سے چلا گیا۔
ثمر خان کے مطابق ان کا سڑک کے درمیان لائیو ویڈیو بنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ مجھے آپ نے ہمیشہ سائیکلنگ کو فروغ دیتے ہوئے دیکھا ہوگا، لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرتے دیکھا ہوگا لیکن میں آج کہہ رہی ہوں کہ یہ بہت اچھا اور مثبت کام تو ہے لیکن میں جھوٹ نہیں بولوں گی، یہ محفوظ نہیں ہے۔ آپ کو جنگلی بننا ہے، آپ کو ڈھیٹ بننا ہے۔ اگر آپ سڑک پر ہیں تو آپ کو اس پر ڈٹنا ہوگا۔
میں سائیکلنگ کر رہی تھی، اسلام آباد کی طرف آ رہی تھی، فیض آباد انٹرچینج سے قبل ایک بندا آیا، آفس کانے والا آدمی تھا، مرون قمیض پہن رکھی تھی، پیچھے آفس کا بریف کیس رکھا ہوا تھا، اس نے موٹر سائیکل آہستہ کی، مجھے پیچھے سے پکڑا، باقاعدہ ہاتھ پھیرا، اور بھاگ گیا۔ میں نے اس کا پیچھا کرنے کی کوشش کی، ابھی بھی میں اس کا پیچھا ہی کر رہی تھی لیکن میں سائیکل پر ہوں تو وہ مجھ سے نکل گیا آگے ورنہ میں نے جو اس کے ساتھ کرنا تھا وہ لائیو آ کے کرنا تھا۔
ثمر خان نے کہا کہ اس میں نہ تو اسلام آباد کی انتظامیہ کا کوئی قصور ہے اور نہ ہی میں کسی پر الزام لگا رہی ہوں، میرا صرف ایک سوال ہے کہ میرے سپورٹرز اور مداحوں میں زیادہ تر مرد حضرات ہیں، میں آپ پہ غصہ بھی نہیں نکال رہی، مجھے ایک سوال کا جواب دیں اگر کوئی سن رہا ہے اور اس کے دماغ میں گندگی چل رہی ہے کہ دو منٹ سڑک پر کسی لڑکی کو ہاتھ لگا کر کیا مل جاتا ہے آپ کو؟ ٹھنڈ پڑ جاتی ہے؟ آگ بجھ جاتی ہے آپ لوگوں کی؟
اور اگر کوئی بندا ایسا ہوتا ہوا دیکھتا ہے تو اس کو معمول کی بات سمجھتے ہوئے چلا کیوں جاتا ہے؟ تین، چار لوگوں نے یہ ہوتے ہوئے دیکھا، کوئی نہیں رکا، کسی نے نہیں روکا، سب چلے گئے، آپ نے اسے روکا کیوں نہیں؟ آپ مرد ہیں۔ ہم خواتین کو پھر آپ کہتے ہیں کہ MeToo کی ساری تحریک ایک ڈرامہ ہے۔ آپ میں سے زیادہ تر برے نہیں ہوں گے، میں مردوں کے خلاف نفرت نہیں پھیلا رہی۔ میں پوچھ رہی ہوں کہ جو کر رہے ہیں، وہ کیوں کر رہے ہیں؟ اور آپ اسے روک کیوں نہیں رہے؟ یا تو پھر اتنا elite class ہو کے کرتے ہوں گے کہ برا ہی نہیں لگتا ہوگا جیسے نعمان اعجاز نے حالیہ انٹرویو میں کہا۔
ثمر خان کی یہ بات کرتے ہوئے آواز رندھ گئی اور انہوں نے کہا کہ میں آئندہ جو بھی کروں گی موقع پر کروں گی جب بھی موقع ملا، لائیو ویڈیو بناؤں گی اور میں دیگر خواتین کو بھی کہتی ہوں کہ ایسے بے شرم لوگوں کو عبرت کا نشان بنائیں۔
گذشتہ چوبیس گھنٹے میں یہ دوسرا واقعہ ہے جس میں ایک خاتون کے ساتھ چلتی سڑک پر انتہائی افسوسناک واقعات پیش آئے ہیں اور نہ جانے کتنے ہزار واقعات ایسے ہوں گے جو اس وقت تک سامنے بھی نہیں آئے۔ ثمر خان کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات نہ صرف بالکل درست ہیں بلکہ بہت چبھنے والے بھی ہیں۔ انہوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ تمام مرد ایسا نہیں کرتے ہوں گے یقیناً لیکن وہ اس کو روکنے کے لئے کیا کر رہے ہیں؟ جب وہ کہتی ہیں کہ اگر ایک مرد نے ان کے ساتھ ایسا کیا تو کم از کم تین سے چار مرد ایسے بھی تھے جنہوں نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھا لیکن کچھ کر نہیں سکے۔ وہ سائیکل پر اس شخص کا پیچھا کرتی رہیں لیکن بہت سے لوگوں کے پاس گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بھی تو ہوں گی۔ کسی نے 15 پر کال کر کے کچھ نہیں کیا؟ یہ ویڈیو سب کے سامنے ہے، پولیس تک بھی ضرور پہنچی ہوگی۔ سیف سٹی کیمرے بھی یقیناً موجود ہوں گے تو ان سے ملزم کی شناخت کر کے اس کو کیفر کردار تک بھی پہنچایا جا سکتا ہے۔
مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ثمر خان جیسی بہادر خواتین بھی ان معاملات میں کچھ نہیں کر سکتیں۔ وہ اپنی بے بسی کا اظہار خود کر رہی ہیں۔ ان کی آواز رندھی ہوئی ہے، وہ غصے میں ہیں، اپنے ساتھ یہ بدتہذیبی دکھانے والے شخص سے بدلہ لینا چاہتی ہیں لیکن وہ کیا کریں کہ وہ اکیلی ہیں؟ یہ ریاست، یہ عوام ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔ ثمر خان جو ہمیشہ لڑکیوں کو سڑک پر آنے، سڑکوں کو claim کرنے کی ترغیب دیتی نظر آتی ہیں، آج کہہ رہی ہیں یہ آسان نہیں ہے، یہ محفوظ نہیں ہے، آپ کو ڈھیٹ ہونا پڑے گا کیونکہ یہ درندے سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔
اگر ان کا حوصلہ جواب دے گیا؟ اگر باقی خواتین جو کچھ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں وہ بھی ہمت ہار بیٹھیں تو؟ ہم لوگ اور تو کچھ نہیں کر سکتے، ان کا حوصلہ بندھا رہے، اس کے لئے ان کی آواز میں اپنی آواز تو ملا سکتے ہیں۔ اربابِ اقتدار و اختیار کی توجہ تو اس طرف دلا سکتے ہیں۔ دیکھیے، انہوں نے تو Men are trash کہہ کر آپ کا دل بھی نہیں دکھایا، بار بار شعوری کوشش کی کہ آپ کی اناؤں کو ٹھیس نہ پہنچے، اب بھی اگر آپ ان کے کپڑوں کو، ان کی سائیکل چلانے کی چوائس کو، ان کے رات کے وقت گھر سے باہر نکلنے کو ہی اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہراتے رہیں تو پھر آپ بھی خود کو اس جرم میں شریک سمجھیں۔