ن لیگ ڈنڈا دیکھ کر گاجر پر لپک پڑی۔ لیکن ڈنڈے والے کا اپنا ہاتھ سُن ہو چکا ہے

ن لیگ ڈنڈا دیکھ کر گاجر پر لپک پڑی۔ لیکن ڈنڈے والے کا اپنا ہاتھ سُن ہو چکا ہے
بقول منیر نیازی

کج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی

یہی کچھ عمومی طور پر پی ڈی ایم اور خصوصاً مسلم لیگ ن کے ساتھ ہوا۔ ان کو گاجر اور ڈنڈا دونوں دکھائے گئے۔ یہ سرپٹ گاجر پر چھپٹ پڑے، یہ دیکھے بغیر کہ ڈنڈے والے کا اپنا ہاتھ سن ہو گیا ہے اور وہ طاقتور نہیں، اور اسے دوبارہ اپنی قوتِ بازو بحال کرنے کے لئے تھوڑی فرصت کی ضرورت ہے۔ اس لئے گاجر کو دام بنا کر ان کے آگے پھینکا اور انہوں نے سوچے سمجھے بغیر سانپ کے منہ میں چھچھوندر کی طرح نگلنا شروع کیا جو اب نہ اگل سکتے ہیں، نہ نگل سکتے ہیں۔

منطقی طور پر یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ عام طور پر شاطر دماغ سیاستدان کس طرح اتنی آسانی سے دھوکہ کھا کر رام ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ خوف، خود غرضی اور ذاتی مفادات بہت جلد اور آسانی سے کسی بھی انسان کے دماغ پر کنٹوپ اور آنکھوں پر پردے چڑھا سکتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کے شاطرانہ دماغ کے داؤ پیچ صرف سادہ لوح عوام پر چلتے ہیں اور ان کی مہارت یہ ہے کہ اپنا بن کر 'بگ برادر' کے لئے عوام کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ان کے سامنے پھینک دیں۔

تاہم، اس کھیل کے دو اہم کرداروں زرداری اور شہباز شریف کے یہ خود غرضانہ ذاتی مفادات تھے جن کے لئے انہوں نے پورے جہاز کو ڈبو دیا۔

اگر مجھ جیسا الگ تھلگ بیٹھ کر اندر کی جوڑ توڑ اور محلاتی سازشوں سے بے خبر بندہ اپریل کے شروع میں ہوا کے چلنے اور پتوں کے ہلنے سے اندازہ لگا کر یہ نیتجہ اخذ کر سکتا ہے کہ جو سیاسی منظرنامہ پر چل رہا ہے یہ رانگ نمبر ہے تو شاطر کیونکر ادراک نہ کر سکے؟ اس وقت میں نے یہیں لکھا تھا کہ

'غیر جانبداری شیوٹرلیٹی کوئی نہیں بلکہ لگ رہا ہے کہ معروضی حالات کے مطابق سکرپٹ اور کرداروں میں وقتی تبدیلی ناگزیر ہوئی ہے۔ مقصد یہ تھا کہ بنیادی کہانی بھی جاری رہے اور ولن بنتے ہوئے ہیرو کو بھی بچایا جائے۔ کیونکہ جون کے مہینے تک دس سالہ پروجیکٹ کو جس پر پیچ خطرناک موڑوں کا سامنا کرنا پڑنا تھا، اس میں نہ پروجیکٹ، نہ ڈائریکٹر، نہ پروڈیوسر اور نہ اداکاروں کا کچھ بچنے کا امکان تھا۔ اب دو مہینوں میں اس تباہ کن پروجیکٹ کا سارا ملبہ ان خود غرضی کی مارے ہوئے سیاسی ناعاقبت اندیشوں پر گر رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کا تو بس اقتدار جائے گا اور سیاست لیکن اس کے نیتجے میں عوام کی جانیں جائیں گی۔ کیونکہ عوام کی جان تو تب بچتی جب اس پروجیکٹ کے سارے کرداروں کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی لیکن ان کی ایک شاطرانہ چال سے اب وہ پھر سے اس پوزیشن میں آ گئے کہ ناصرف اپنے تباہ کن پروجیکٹ کی قیمت سیاسی طور پر ان سیاستدانوں اور فلاح و بہبود کے حوالے سے عوام سے وصول کریں بلکہ اپنا یہ کٹھ پتلیوں والا کھیل بھی جاری رکھ سکیں گے۔

یہ میں اس بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ اگر یہ حقیقت میں نیوٹرل ہو کر اپنا ستر سالوں سے جاری گھناؤنا سیاسی کھیل ختم کرتے تو اس کے اثرات مختلف شعبوں اور سطحوں پر نظر آتے۔

پی ڈی ایم کے رہنماؤں خصوصاً زرداری اور شہباز شریف کو شروع میں اس بات کا ادراک کرنا چاہیے تھا کہ آخر ایم کیو ایم اور بی اے پی کو سگنل ملنے یا نیوٹریلٹی محسوس ہونے میں چار، پانچ مہینے کیوں لگ رہے ہیں۔ اگر ملٹیبلشمنٹ نے حقیقی طور پر نیوٹرل اور غیر سیاسی ہونا تھا تو سردست مداخلت سے بنائی گئی سارے آؤٹ پوسٹس کو ختم یا کم از کم ناکارہ کرنا چاہیے تھا۔ کیونکہ اصل غیر جانبداری تب شروع ہوتی جب یہ پہلے اپنی سیاسی مداخلت کے نیتجے میں پھیلایا ہوا گند خود صاف کرتے۔ لیکن یہ اصل میں گند صاف کرنے سے بچنے کے لئے غیر جانبداری کا لبادہ اوڑھ کر آ گئے۔ کیا پانچ ماہ پی ٹی آئی کے اتحادیوں کو اس لئے واضح سگنل نہیں مل رہا تھا کہ عمران خان کو نیا بیانیہ اور عوامی موبلائزیشن کے لئے کافی وقت مل جائے؟ اگر نومبر میں جس وقت ملٹیبلشمنٹ نے رجیم چینج کا فیصلہ کیا، ایک دو ہفتوں میں یہ سارا عمل تکمیل تک پہنچتا تو کیا عمران خان کا سیاسی قد یہ ہوتا جو آج ہے اور پی ڈی ایم کی موجودہ حالت یہ ہوتی؟ یا پھر اگر پی ٹی ائی کی حکومت کو بجٹ پیش کرنے تک رہنے دیا جاتا اور آج پٹرول کی قیمت 310 روپے ہوتی اور مہنگائی کا یہ طوفان بھی تو صورتحال کیا ہوتی؟ کیا عمران خان میں اتنی سیاسی جرات تھی کہ ملٹیبلشمنٹ کو ٹھینگا دکھا کر آئی ایم ایف کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد نہ کرتا؟ کیا یہ ملٹیبلشمنٹ نہیں تھی جس نے عمران خان کو آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور کیا تھا اور اس کے لئے اسد عمر کو ہٹا کر اپنا وزیر خزانہ حفیظ شیخ لگایا تھا؟ لیکن اگر نومبر میں حکومت تبدیل ہوتی تو نئی حکومت کو بجٹ تک سانس لینے اور متبادل ذرائع سے مالی بندوبست کے لئے کافی وقت مل جاتا اور اگر بجٹ تک پی ٹی آئی حکومت رہنے دی جاتی تو ملٹیبلشمنٹ اور عمران دونوں کے پرخچے اڑنے تھے۔ اگر ملٹیبلشمنٹ گند صاف کرنا چاہتی تو 52 ہزار جعلی ووٹ لے کر سپریم کورٹ کے سٹے آرڈر پر بیٹھا ڈپٹی سپیکر اتنا شیر بنتا کہ وہ آئین اور قانون کی دھجیاں اڑاتا؟ کیا عمران خان جیسا ڈرپوک سینہ تان کر روزانہ جلسے کرتا یا اب عدالتوں میں اپنی کرپشن اور کرتوتوں کا حساب دیتا؟ کیا یہ سب نئے سکرپٹ کا حصہ تھا کہ نئی حکومت کو ایسی گلے میں بند کر دیں کہ نہ آگے جانے کے قابل ہو اور نہ پیچھے؟ کیونکہ زرداری شہباز حکومت آنے کے دو ہفتے بعد ماحول ایسا بنایا گیا کہ اگر اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کی طرف جاتے تو فتح عمران کی اور اگر رہتے تو نکیل بذریعہ عدلیہ کے ملٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں، ہیرو عمران خان اور ولن یہ۔

ایسی بھی بات نہیں کہ کسی نے ان کو خبردار نہیں کیا تھا۔ یہ ریکارڈ پر ہے کہ مہنگائی مارچ کے اسلام آباد میں اختتامی جلسے میں محمود خان اچکزئی نے مولانا فضل الرحمان اور شہباز شریف سے اپیل کی کہ ایسی حکومت قبول کرنے کی غلطی نہ کریں لیکن انہوں نے اس اپیل کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔

دوسرا، اگر ملٹیبلشمنٹ حقیقی طور پر سیاسی مداخلت ختم کرتی اور غیر سیاسی ہو جاتی تو کیا میڈیا میں ملٹیبلشمنٹ کے پیدا کردہ اور پروردہ صحافی نما ٹاؤٹس اور ریٹائرڈ فوجی آفیسر اتنے انقلابی بن کر میدان میں اترتے اور جنرل باجوہ کو سر عام گالیاں دیتے؟ کیا عدلیہ کا رویہ وہی پاناما والا ہوتا یا بدل جاتا؟ کیا جسٹس شوکت صدیقی اب بھی انصاف کے لئے خاک چھان رہا ہوتا؟ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ پاناما اور واٹس ایپ والے برادر ججوں کا رویہ اور کردار اب بھی برادران یوسف والا ہوتا اور ان کونکالنے کی ناکام کوشش کے بعد یہ سینیئر ترین جج جس نے اگلے سال چیف جسٹس بننا ہے، کو عضو معطل بنا سکتے تھے؟ کیا عدلیہ اب تک ججوں کے تقرر اور ترقی کے لئے جنرل کیانی اور افتخار چودھری کی بنائی ہوئی سکیم پر عمل درآمد کر رہی ہوتی؟ وہی سکیم جس سے جسٹس وقار سیٹھ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسے غلطی سے یا قسمت سے لگائے ہوئے فلٹر سے نکل کر اعلیٰ عدلیہ میں در آتے ہیں اور پھر ان کو ٹھکانے لگانے کا ہر غیر آئینی اور غیر قانونی نسخہ آزمایا جاتا ہے۔

اگر اس زاویے سے دیکھا جائے تو جنرل باجوہ بمقابلہ جنرل فیض نورا کشی ہی لگ رہی ہے۔ جنرل ایوب سے لے کر مشرف تک اس ادارے کی یہ تاریخ ہے کہ جب کلہاڑی لکڑی کاٹ کاٹ کر کند ہو جائے تو اس کو تیز کرنے کے لئے ایسی لوہے کی سوان ہی استعمال کرتا ہے۔ اب گالیاں باجوہ اور فیض کو پڑ رہی ہیں لیکن ادارہ اور اس کے سیاسی کردار ایک بار پھر محفوظ ہو گئے۔ یہ دونوں حضرات ویسے اتنے متنازع ہو چکے تھے کہ اگر ان کو ڈھال نہیں بناتے تو ادارے کی ریاست اور سیاست پر گرفت کمزور ہو سکتی تھی۔

دوسری جانب حکومت کی کمزوریاں تو تھیں ہی لیکن اب سکینڈل بھی آنے لگے۔ پیمرا جو ابصار عالم کے بعد موجودہ چیئرمین کے دور میں بدنامی کی گہرائیوں کو چھو رہا ہے اس چیئرمین کے ملازمت میں توسیع کے لئے موجودہ وزیر اطلاعات کے سرگرم ہونے کے خبریں گردش کر رہی ہیں۔ صحافی انیق ناجی نے گذشتہ روز اپنے وی لاگ میں مریم اورنگزیب پر بھی مالی بے ضابطگیوں کا الزام لگایا ہے۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی زیر گردش ہے کہ جنرل مشرف کو ایک غیر منتخب اہم شخصیت کے جہاز پر خاموشی سے دبئی سے راولپنڈی کے ایک اسپتال منتقل کیا گیا ہے اور بات کو صغیہ راز میں رکھا جا رہا ہے۔

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ سے اس کا ہر تھوکا چٹوا کر کوئی اس کو عوام کی نظروں میں ذلیل کر رہا ہے یا مسلم لیگ ن اپنے آپ کو بہتر وفادار ثابت کرنے کی دوڑ میں ہے؟ ورنہ یہ کام پی ٹی آئی کے دور حکومت میں تو بہت آسانی سے ہو سکتا تھا۔

ملک کی موجودہ معاشی صورتحال اور مستقبل قریب میں قرضوں اور مزید ٹیکسوں کے علاوہ کوئی اور امید یا افغان جہاد اور دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی طرح ٹھیکے نہ ملنے کی صورت میں ملٹیبلشمنٹ مجبوراً کچھ سٹرٹیجک اثاثے ڈالروں کے عوض سرنڈر کرنے پر غور کر سکتے ہیں، یا شاید پہلے سے زیر غور ہوں، کیا وہ بھی شہباز شریف اور زرداری سے کروانا چاہتے ہیں؟ یہ وہ اثاثے ہیں جن کا کریڈٹ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن لیتی ہیں۔

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔