ججز کے خط کا معاملہ:' ریٹائرڈ ججز کا کمیشن بنانے کا فیصلہ تاریخی غلطی ہے' 

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اگر ریٹائرڈ جج کا کمیشن بنانے کا کہا ہے تو تاریخی غلطی کی ہے۔ یقین ہے سپریم کورٹ کا اجتماعی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔  اگر کیا ہے تو افسوسناک ہے۔ پاکستان کے وکلا سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی مخالفت کریں گے۔

ججز کے خط کا معاملہ:' ریٹائرڈ ججز کا کمیشن بنانے کا فیصلہ تاریخی غلطی ہے' 

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر ریٹائرڈ ججز کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا فیصلہ تاریخی غلطی ہے۔ حکومت کا ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا فیصلہ بالکل غلط ہے۔ سپریم کورٹ نے اگر ریٹائرڈ جج کا کمیشن بنانے کا کہا ہے تو تاریخی غلطی کی ہے۔ یہ کہنا تھا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما اور ماہرین قانون حامد خان کا۔

پی ٹی آئی رہنما حامد خان نے جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ نے اگر ریٹائرڈ ججز کا کمیشن بنانے کا کہا ہے تو تاریخی غلطی کی ہے۔ سپریم کورٹ کو اس خط پر از خود نوٹس لینا چاہیے تھا۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا حکومتی فیصلہ مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ ججز پر مشتمل کمیشن بنانے کا مطالبہ بھی کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کا ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا فیصلہ بالکل غلط ہے۔ وکلا کا مطالبہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن حاضر ججوں کے ساتھ بنایا جائے۔

حامد خان نے یہ بھی کہا کہ ہائی کورٹ کے ججز نے سنگین الزامات لگائے ہیں۔ 5 ججوں پر مشتمل کمیشن بنایا جائے۔ چیف جسٹس سربراہی کریں۔

اُن کا کہنا تھا کہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے کسی بیان پر یقین نہیں رکھتا۔ یقین ہے اعظم نذیر جو بات کررہے ہیں وہ بالکل بے بنیاد اور غلط ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اگر ریٹائرڈ جج کا کمیشن بنانے کا کہا ہے تو تاریخی غلطی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یقین ہے سپریم کورٹ کا اجتماعی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔  اگر کیا ہے تو افسوسناک ہے۔ پاکستان کے وکلا سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی مخالفت کریں گے۔

ماہر قانون حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اس خط پر از خود نوٹس لینا چاہیے تھا، ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا ہے۔ انہیں گائیڈنس دینا چاہیے۔

اُن کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کو اپنی سربراہی میں کمیشن بنانا چاہیے تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے تاریخی جرات کا کام کیا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

دوسری جانب وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فل کورٹ کا فیصلہ آیا ہے کہ کمیشن بنایا جائے۔ہم اس پر عمل کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے سپریم کورٹ کے فل کورٹ اعلامیے کے مطابق قدم اٹھایا ہے۔ اب سمجھ نہیں آرہی ہے کہ کمیشن پر تنقید کون اور کیوں کر رہا ہے۔ تنقید کرنے والوں نے شاید اعلامیہ نہیں پڑھا یا سمجھا نہیں۔

گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے خط کے معاملے پر پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم رؤف حسن، نعیم حیدر پنجوتھہ، شعیب شاہین، علی بخاری اور نیاز اللہ نیازی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق سے استعفی کا مطالبہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ 26 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے ججوں کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا خط سامنے آیا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

خط میں لکھا گیا کہ ججز کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کا کیا ردعمل دیا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے جس پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار عمل درآمد کرواتے ہیں؟

ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اسلام آباد کی عدلیہ کو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے درپیش دھمکی امیز واقعات کا بھی ذکر کیا گیا۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کی اوپن کورٹ تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر ہوگئی۔

میاں داؤد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی جس میں سپریم کورٹ سے با اختیار کمیشن تشکیل دے کر انکوائری کروانے استدعا کی گئی ہے۔ 

اس معاملے پر سپریم کورٹ کے 2 فل کورٹ اجلاس ہوئے تھے جبکہ چیف جسٹس اور وزیراعظم کی ملاقات بھی ہوئی تھی جس کے بعد حکومت نے عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔