شکر ہے کراچی میں چینی کونسل خانہ پر حملہ ناکام ہو گیا اور پولیس کی بروقت کاروائی کی وجہ سے کچھ زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا مگر وہ جو کہتے ہیں کہ عقل مند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے۔
اس حملہ کی ذمہ داری بلوچستا ن لبریشن آرمی نے لی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بلوچستان میں جو آگ لگی تھی اس میں سے اب بھی دھواں نکل رہا ہے اور کبھی کبھی چنگاری بھی پھوٹ پڑتی ہے۔
ہمیں کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کر ریت میں منہ نہیں چھپانا چاہے بلکہ ایک بار پھر سنجیدگی سے بلوچستان کے مسئلہ پر غور و خوض کرنا چاہیے اور اس کا کوئی پر امن اور مستقل حل نکالنا ضروری ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ آج پیدا نہیں ہوا۔ اس کی بہت پرانی تاریخ ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس کی جڑیں آزادی اور قیامِ پاکستان میں ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
برطانوی ہندوستان میں دو قسم کے علاقے تھے۔ ایک جو براہ راست برطانیہ یا انگریز حکومت کے زیر حکومت تھے اور اس کے علاوہ ہندوستان میں تقریباً چھ سو کے قریب چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں جہاں پر ان کے اپنے حکمران تھے گو ان ریاستوں میں آخری حکم انگریز کا ہی چلتا تھا اور وہ اپنی مرضی سے وہاں کا حکمران تبدیل کر سکتا تھا۔
آزادی کے وقت کانگرس، مسلم لیگ اور انگریزوں کے سامنے ان ریاستوں کے مستقبل کا مسئلہ تھا۔ایسی ریاستیں بھی تھیں جن کے حکمران مسلمان تھے اور رعایا ہندو یا غیر مسلم تھی اور ایسا بھی تھا کہ رعایا مسلمان تھی اور حکمران ہندو یا غیر مسلم تھے۔ آپ حیدرآباد دکن اور کشمیر کی مثالیں دے سکتے ہیں۔ حیدرآباد میں حکمران مسلمان تھا اور عوام کی اکثریت کا تعلق ہندومت سے تھا۔ دوسری طرف کشمیر میں آبادی کی اکثریت مسلمان تھی اور حکمران ہندو تھا۔
حیدر آباد اور جونا گڑھ کے مسلمان حکمرانوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ کشمیر کے راجہ نے پاکستان سے Standstill معاہدہ کیا۔ گو بعد میں جب پاکستان سے ’مجاہدین‘ نے 1948 میں کشمیر پر حملہ کیا تو کشمیر کے راجہ نے ہندوستا ن سے الحاق کر لیا۔
حیدرآباد دکن پر ہندوستان نے پولیس ایکشن کر کے قبضہ کر لیا۔
دراصل برطانوی ہندوستان میں ریاستوں کے مستقبل نے برصغیر پر بہت گہرے نقوش چھوڑے جن کا ہم آج تک خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ مؤرخ بتاتے ہیں کہ قائد اعظم بانی پاکستان نے اپنی ذہانت اور لیاقت سے راجستھان کی ایک ریاست کے ہندو حکمران کو پاکستان میں شمولیت کے لئے قائل کر لیا تھا جس کی اکثریت ہند و تھی۔
برطانوی راج نے مقامی راجوں کے ساتھ دو قسم کے معاہدے کیے تھے۔ چند بڑی ریاستیں ایسی تھیں جن کے ساتھ انگریزوں نے معاہدے کیے تھے کہ جب وہ ہندوستان چھوڑ کے جائیں گے تو ان کی غلامی سے پہلے والی صورت حال بحال ہو جائے گی۔
ان ریاستوں میں کشمیر، حیدرآباد دکن، قلات اور بہالپورکی ریاستیں بھی تھیں۔
بلوچستان کے حکمران نواب کے قانونی مشیر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ تھے۔
جب برصغیر کو آزادی ملی تو ہندوستان نے کچھ ہی عرصے بعد ساری ریاستوں کو ہندوستان میں ضم کر لیا اور ان کے حمکرانوں کے لئے وظائف مقرر کر دیے۔ اس کے برعکس پاکستان نے ان ریاستوں کو اندرونی خود مختاری دے دی۔ پاکستان میں شامل ہونے والی بڑی ریاستیں بہاولپور اور خیر پور تھیں۔ گو ان کے علاوہ چھوٹی بڑی ریاستیں یعنی سوات اور امبھ وغیرہ بھی تھیں۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد قلات کی ریاست نے پاکستان میں شمولیت سے انکار کر دیا۔ وہاں کے حکمرانوں کا یہ نقطہ نظر تھا کہ انگلستان کے معاہدے کی رو سے وہ ایک آزاد ریاست ہے۔ بہرحال پاکستان نے فوج کشی کر کے اس کو پاکستان میں شامل کر لیا۔
اس وقت سے بلوچستان میں کسی نہ کسی حوالے سے اور کسی نہ کسی سطح پر ’آزادی‘ کی جدوجہد جاری ہے۔ بلوچوں اور حکومت پاکستان کے درمیان امن معاہدے ہوتے رہے اور ٹوٹتے رہے۔ جنرل ایوب خان کے زمانے میں جب باغی پہاڑوں سے ایک معاہدے کے تحت نیچے اتر آئے تو انہیں پھانسی دے دی گئی۔ اس طرح وعدہ خلافی کی گئی۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو نے جب بلوچستان میں NAP کی حکومت توڑی اور NAP کے لیڈروں پر غداری کا مقدمہ قائم کر دیا تو بلوچوں نے مسلح جدوجہد کا راستہ اپنا لیا۔ یہاں اس وقت نواب اکبر بگٹی کے کردار کو نہیں بھولنا چاہیے جس نے بھٹو کا ساتھ دیا۔
جنرل ضیا نے اقتدار سنبھال کر حیدرآباد سازش کیس واپس لے لیا اور سب ملزوں کو رہا کر دیا۔
اس وقت سے لے کر بلوچ کسی نہ کسی طرح سے پاکستان کے اندر اقتدار میں شامل رہے۔ بلکہ وہ جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضہ تک اقتدار میں شامل تھے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جنرل مشرف نے پتہ نہیں کس برتے پر نواب اکبر بگٹی کا قتل کر دیا جس کی وجہ سے بلوچستان میں ایک نئی قسم کی بغاوت پیدا ہوئی۔ اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان کی آزادی کی قیادت نوابوں سے نکل کر درمیانے طبقے کے بلوچوں کے ہاتھ میں آ گئی۔ بلوچستان لبریشن آرمی بھی ان میں سے ایک ہے جس نے کراچی چینی کونسلیٹ پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
جیسا کہ امید تھی پاکستان نے اس حملہ کے پیچھے ہندوستانی ’را‘ کا ہاتھ دیکھ لیا ہے۔
دوسری طرف حال ہی میں امرتسر میں دہشتگردی کے واقعہ پر ہندوستان نے پاکستانی آئی ایس آئی پر الزام لگا دیا ہے۔
ایسے حالات میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرتارپور کوریڈور کھلنا امن کی طرف یقیناً ایک بہت ہی اہم پیش رفت ہے جس کی دونوں طرف اور دنیا بھر کے امن پسند تعریف کریں گے اور چاہیں گے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیاں تعلقات خوش گوار ہوں اور وہ میز پر مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈیں۔
مگر پاک ہند مذاکرات پر گہری نظر رکھنے والے کرتار پور کوریڈور پر کوئی زیادہ پر امید نہیں دکھائی دیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ وقتی ابھار ہے۔ وہ ماضی کے سندھ اور راجستھان کے درمیان منابھاؤ ٹرین سروس کی بھی مثال دیتے ہیں جس کا اب کوئی ذکر بھی نہیں کرتا۔
ہندوستان کی وزیر خارجہ ششما سوراج نے پاکستان سے اس وقت تک مذاکرات خارج از امکان قرار دیا ہے جب تک پاکستان ہندوستان میں دہشت گردی کی سرپرستی ختم نہیں کرتا۔
آخر میں پتہ نہیں وزیر اعظم عمران خان نے کس موڈ میں کہا کہ شاید حالات اس وقت ٹھیک ہوں جب ہندوستان میں کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو وزیر اعظم نہیں بن جاتا۔ وہ بھول گئے ہیں کہ ہندوستان میں پاکستان جیسی خلائی مخلوق نہیں ہے۔