پاکستان میں طلبہ کے جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور سمیت ملک کے پچاس سے زائد شہروں میں ترقی پسند طالب علموں کی طرف سے یکجہتی مارچ کیے گئے۔
اس مارچ کا اہتمام بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی دو درجن سے زائد ترقی پسند تنظیموں پر مشتمل سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے کیا تھا۔ امریکا، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا سمیت کئی ممالک کی جامعات میں پڑھنے والے طلبہ نے بھی طالب علموں کے اس یکجہتی مارچ کی حمایت کرتے ہوئے حکومت پاکستان کے نام ایک مشترکہ خط لکھا ہے، جس میں سٹوڈنٹس یونینز پر عائد پابندی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
25173/
طلبہ یکجہتی مارچ کے شرکاء کے مطالبات میں سٹوڈنٹس یونینز کی بحالی، تعلیمی بجٹ میں اضافہ، فیسوں میں کمی، تعلیمی اداروں میں سکیورٹی فورسز کی مداخلت کا خاتمہ، ایسے اداروں میں جنسی ہراسگی کے خلاف قانون پر مؤثر عمل درآمد، ان اداروں کی نجکاری سے اجتناب اور بلوچستان یونیورسٹی میں ہونے والے جنسی ہراسگی کے واقعے کی کھلی تحقیقات سمیت بہت سے مطالبات شامل تھے۔
https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1200410565077798914?s=20
لاہور میں یہ طلبہ یکجہتی مارچ انقلابی ترانوں، مزاحمتی شاعری، فیض احمد فیض کے کلام، ڈھول کی تھاپ اور انقلابی نعروں سمیت اپنے اندر عوامی دلچسپی کے بہت سے رنگ لیے ہوئے تھا۔ ایک بینر پر تحریر تھا، ''نفرت پڑھانا بند کرو، انسانیت پڑھانا شروع کرو۔‘‘ ایک دوسرے پلے کارڈ پر لکھا تھا، '' اسموگ کی سطح کم کرو، تعلیمی بجٹ نہیں۔‘‘
مارچ کے شرکاء 'سرخ ہے سرخ ہے، ایشیا سرخ ہے،‘ اور 'انقلاب انقلاب، سوشلسٹ انقلاب‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ ایک طالبہ شرکاء کی قیادت کرتے ہوئے نعرے لگوا رہی تھی، 'عورت کی آواز بنا، انقلاب ادھورا ہے،‘ 'طلبہ کی یلغار بنا، انقلاب ادھورا ہے،‘ اور 'مزدور کی للکار بنا، انقلاب ادھورا ہے‘۔
طلبہ یکجہتی مارچ میں نمایاں لال رنگ کا مطلب کیا ہے؟
دراصل لال رنگ کی ایک گہری تاریخ ہے جس کے تحت طلبہ نے اسے اپنی تھیم بناتے ہوئے احتجاج کو نمایاں کیا۔
لال رنگ بنیادی طور پر سوشلزم، کمیونزم اور مارسزم کی علامت ہے جو فرانسیسی انقلاب کے بعد سے بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ ہے۔ اس کے ذریعے بادشاہت کا تختہ الٹا گیا اور 18 ویں صدی کے آخر میں ایک جمہوری دور قائم ہوا۔
طلبہ نے یکجہتی مارچ میں لال رنگ کو مزاحمتی علامت کے طور پر استعمال کرکے واضح کیا کہ لال رنگ دنیا میں کہیں بھی ناانصافی، بے رحمی اور غیر جمہوری کاموں کے خلاف شدید ضرورت پڑنے پر تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے۔
https://youtu.be/3itYsbv8aUU
یہی وجہ تھی کہ طلبہ نے یکجہتی مارچ میں لال رنگ سے نعرے بھی منسوب کیے جن میں’ جب لال لال لہرائے گا تب ہوش ٹھکانے آئے گا‘ نعرہ بھی شامل تھا۔
35 سال سے طلبہ یونین پر پابندی عائد
خیال رہے کہ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں طلبہ یونین پر عائد پابندی کو 35 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار کے بعد 2008 میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا لیکن اس پر کوئی عمل نہ کیا گیا۔
23 اگست 2017 کو سینیٹ نے متفقہ قرار داد پاس کی کہ یونین کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں لیکن اس پر بھی کوئی پیشرفت نہ ہوسکی۔