جنرل سید عاصم منیر نے 17 ویں آرمی چیف کی حیثیت سے پاک آرمی کی کمان سنبھال لی۔ نئے آرمی چیف نے ایسے وقت میں فوج کی کمان سنبھالی ہے کہ جب عسکری ادارہ ایسے مسائل اور چیلنجز کا شکار ہے جو ان سے پہلے کسی آرمی چیف کے حصے میں نہیں آئے۔ تاہم امید کی جا رہی ہے کہ سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کی جانب سے فوج کے غیر سیاسی ہونے کے فیصلے پر فوج سختی سے کاربند رہے گی۔
نجی نیوز چینل کے پروگرام 'آن دی فرنٹ' میں پروگرام اینکر کامران شاہد نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے خلاف ہونے والی سازشوں کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ فوج کے غیر سیاسی ہونے کی اپروچ کے مرکزی خالق جنرل عاصم منیر ہیں۔ عوام کو یہ تسلی ہونی چاہیئے کہ اب فوج کی کمان ایسے سپہ سالار کے ہاتھ میں ہے جو حقیقی طور پر غیر سیاسی ہے اور اس کی کسی بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں ہے۔ نیا آرمی چیف نہ کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ ہو گا اور نہ ہی خلاف ہو گا۔ جب بھی حکومت مدد کے لیے بلائے گی فوج اپنی امداد بہم پہنچائے گی۔ ملک کے لیے وہ ہمیشہ تیار ہیں۔ اداروں کے ساتھ وہ ہمیشہ کھڑے رہیں گے۔ تمام تر سازشوں کے باوجود جنرل عاصم منیر آرمی چیف بنے۔
سازشوں کو مختصراً بیان کرتے ہوئے کامران شاہد نے کہا کہ جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری کو روکنے کے لیے سب سے پہلے موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا پروپوزل آیا۔ یہ پروپوزل جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے نہیں تھا بلکہ یہ آئیڈیا چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے دماغ کی اختراع تھا۔ لیکن یہ آئیڈیا بیچ رستے میں ہی ختم ہو گیا۔ عمران خان کی جانب سے کوشش کی گئی تھی کہ قمر جاوید باجوہ کی توسیع سے عاصم منیر کی تقرری نہ ہو سکے کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ عاصم منیر آرمی چیف بنیں۔
صحافی نے کہا کہ ملکی صورت حال ایسی ہو چکی تھی کہ مارشل لا لگنے کا بھی امکان تھا تاہم اس دوران ہونے والی اہم کور کمانڈرز میٹنگ میں اس خیال کی نفی کر دی گئی اور ملک میں مارشل لا نافذ ہونے کا امکان بھی ختم ہو گیا۔
اینکر نے مزید کہا کہ تیسری سازش یہ تھی کہ ایک اہم جنرل جو کہ اب ریٹائر ہو گئے ہیں، انہوں نے جنرل عاصم منیر کی تعیناتی سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس میں مسئلہ یہ تھا کہ عدالت میں اس فریق کی تو شنوائی ہو سکتی تھی جو براہ راست متاثر ہوا ہو لیکن آپ کسی اور کو آگے لاکر اس معاملے کو اٹھانے کی کوشش کریں تو عدالت اس معاملے پر بالکل سماعت نہ کرتی۔ فوج کے قوانین اور ضوابط کے پیش نظر ان معتبر فوجی جنرل نے اس معاملے کو عدالت میں لے جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ یعنی عاصم منیر کو روکنے کے لیے عدالت تک جانے کا منصوبہ تھا۔
کامران شاہد نے چوتھی اور آخری سازش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کا نام سامنے آیا۔ حکومت کو کہا گیا کہ ان کو آرمی چیف بنا دیا جائے تاہم اس آپشن پر مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف اپنے اور شہباز شریف کے متفقہ فیصلے پر ڈٹ گئے اور جنرل عاصم منیر کو نیا آرمی چیف بنا دیا۔
آرمی چیف سید عاصم منیر کا عسکری سفر
لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر اس وقت سینیئر ترین جنرل ہیں۔ انہیں ستمبر 2018 میں 3 اسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی لیکن انہوں نے چارج 2 ماہ بعد سنبھالا تھا۔
اعزازی شمشیر یافتہ عاصم منیر پاک فوج کے 17 ویں آرمی چیف ہیں۔ وہ 2017 میں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس تعینات ہوئے۔ 2018 میں ڈی جی آئی ایس آئی جبکہ جون 2019 میں کور کمانڈر گوجرانوالہ تعینات ہوئے۔
جنرل عاصم 2021 میں کوارٹر ماسٹر جنرل تعینات ہوئے۔
جنرل عاصم نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی اسلام آباد سے فارغ التحصیل ہیں۔ جنرل عاصم منیر نے آفیسرز ٹریننگ سکول منگلا سے 1986 میں تربیت لی تھی. ان کا او ٹی ایس میں 17 واں آفیسرز ٹریننگ کورس تھا۔انہیں دوران تربیت اعزازی شمشیر سے بھی نوازا گیا۔
جنرل عاصم منیر نے پاک فوج کی 23 فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ جنرل عاصم بطور بریگیڈیئر راولپنڈی کور میں جنرل باجوہ کے ماتحت رہے۔
جنرل عاصم 2014 میں کمانڈر فورس کمانڈ ناردرن ایریا جبکہ سعودی عرب میں ڈیفنس اتاشی تعینات ہوئے۔ انہیں ہلال امتیاز ملٹری، تمغہ دفاع اور تمغہ جمہوریت سے نوازا گیا۔
جنرل عاصم کو کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ انسٹرکٹر میڈل سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر مثالی یادداشت کے حامل اور حافظِ قرآن بھی ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کی عسکری تاریخ میں جنرل عاصم منیر پہلے آرمی چیف ہیں جو دو انٹیلی جنس ایجنسیوں (آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس) کی سربراہی کر چکے ہیں۔ مزید براں وہ پہلے کوارٹر ماسٹر جنرل ہیں جنہیں آرمی چیف مقرر کیا گیا ہے۔