پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں جس کو جو کام کرنا چاہیے وہ نہیں کرتا اور نہ کرنا چاہتا ہے بلکہ ہر وہ کام کیا جاتا ہے جو کہ ان کی پہنچ، ان کے ہنر اور سوچ کی بساط سے باہر ہوتا ہے۔ یہاں دفاعی تجربہ کار سیاسی تجزیہ کار ہوا کرتے ہیں۔ علما فینسی سوٹ پہن کر اسلامی پروگراموں میں اداکاری اور ڈرامہ کاری بھی لے آئے ہیں۔
یہاں سیاستدانوں کو ٹیکنوکریٹ اور ٹیکنو کریٹوں کو سیاسی عہدوں پر زبردستی تعینات کرنے کا رواج ہے۔ یہاں بے باک اداکاری کے آئیکونز اسلامی شعائر بشمول پردے کے علمبردار ہیں۔ یہاں بد احتسابی کو احتساب اور بدترین آمریت کو جمہوریت کہہ دیا جاتا ہے۔
یہاں کے دانشور جو ہر وقت دیانت کا سبق دیتے ہیں، سب سے بڑی بدیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ سب سے خوفناک امر یہ ہے یہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر غلط کام کرتے ہوئے اپنے خلاف اٹھنے والی مخالف آوازوں کو دبانے کے لئے مذہب کا شرمناک استعمال کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان اب ایک گھامڑستان کا شائبہ دیتا ہے۔ ان دنوں ایسا ہی ایک معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہ معاملہ وینا ملک کے حوالے سے ہے۔ افسوسناک سہی لیکن واضح ہے کہ وینا ملک اوپر بیان کئے گئے قومی گھامڑپن کی پوسٹر گرل یا عام لفظوں میں نمائندہ چہرہ ہے۔
وینا ملک ہر جو کچھ کرتی ہیں وہ اغلاط کا مجموعہ ہے جس کا نقصان معاشرہ اٹھا رہا ہے۔ سیاسی پراپیگنڈے سے لبریز ان کی اصلاح معاشرت، سیاست اور معیشت پر مبنی ٹویٹس واضح طور پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی لائن پر ہوا کرتی ہیں۔
ابھی حال ہی میں ان کا ایک انٹرویو سامنے آیا جس میں وہ یہ بتانے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کر سکیں کہ ان کی ٹویٹس کے الفاظ ان کے اپنے نہیں ہوتے۔ اداکارہ وینا ملک نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’ہر لمحہ پرجوش‘ میں شرکت کی اور میزبان وسیم بادامی کے دوستانہ سوالات کے جوابات دیے۔
وینا ملک نے بتایا کہ تنقید کے ٹویٹس وہ خود ہی کرتی ہیں لیکن ان الفاظ کا چناؤ کوئی اور کرتا ہے۔ یہ اس مشہور خاتون کا بیان ہے جس نے گزشتہ کئی سالوں تک مکمل طور پر ایک سیاسی پراجیکٹ کے تحت سیاسی پروپیگنڈا میں حصہ ڈالا۔
وہ اس ملک کو ایک نام نہاد سمت دکھا رہی تھیں جبکہ ان کا اپنا کہنا ہے کہ انکے الفاظ اپنے نہیں تھے۔ ٹویٹر پر الفاظ سے متعلق اداکارہ نے کہا کہ اگر آپ رات کو رات نہیں کہیں گے تو کیسے بیان کر سکتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ میرا نکتہ نظر بہت اچھا ہے۔
پھر انٹرویو کے اگلے مرحلے میں اداکارہ وینا ملک نے عورت مارچ کو شرمناک قرار دے دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عورت مارچ جس کے خلاف وینا ملک بدترین سطح پر زہریلا پراپیگنڈا کرتی رہی وہ خواتین کی مرضی کا جو حق مانگتا ہے، وینا ملک اس کو بھرپور مگر متنازعہ طور استعمال کرتے ہوئے بالی ووڈ میں متنازع ترین آئی ایس آئی مارکہ فوٹو شوٹ کروا چکی ہیں۔
دوسری جانب عامر لیاقت سے متعلق سوال پر وینا ملک نے انہیں اچھا مزاحیہ شخص قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں فلموں میں آنا چاہیے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ عامر لیاقت نے میرے ساتھ فلم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن پھر وہ شاید مصروف ہوگئے۔
اداکارہ نے کہا کہ خلیل الرحمان قمر دور حاضر کے فلاسفر ہیں وہ ناصرف اچھے رائٹر بلکہ اچھے انسان بھی ہیں، ان کو بہت وقت یاد رکھا جائے گا۔ اب عامر لیاقت جنہوں نے مذہبی پروگراموں میں بھونڈے پن کی نئی جہتوں کو متعارف کروایا وہ وینا ملک کی پسند ہیں جبکہ خلیل الرحمان قمر ایک زن بیزار، متشدد اور بد زبان ڈرامہ نگار جو ایک ہی وقت میں فلاسفر، مذہبی و سماجی رہنما بننے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے، خواتین دشمنی میں مشہور ہوئے، وہ وینا ملک کے لئے ایک فلاسفر اور عظیم شخصیت ہیں۔
دوسری جانب ماروی سرمد سے متعلق وینا ملک نے کہا کہ ان کا نام بھی لینا نہیں چاہتی، زندگی میں کسی اور چیز کو استعمال کر لیتی ہیں، انہوں نے عورت مارچ کو استعمال کیا ہے۔ ماروی سرمد جن پر کئی اعتراض ہوں گے تاہم انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی علمبردار ہیں لیکن کیونکہ وہ ملا اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کو رد کرتی آئی ہیں۔ اس لیے ایک اداکارہ جس کی سیاسی سوچ کی گہرائی یا نظریے کی پختگی سب پر واضح ہے انکے لئے وہ ایک طویل سیاسی و اکادمی جدوجہد کی حامل خاتون کو رد کرتی ہیں اور انہیں ایک چینل کوریج دیتا ہے۔ وینا ملک کے انٹرویو کو اگر مکمل طور پر دیکھا جائے تو ان کا ہر بیان مکمل طور پر غلط وجوہات کی بنا پر ایک قومی گھامڑپن کا عکاس تھا۔