سکندر مرزا سے مشرف تک کا سبق: سامان سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں

سکندر مرزا سے مشرف تک کا سبق: سامان سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں
ناہید! علاج کے لئے روپے نہیں ہیں، مجھے ہسپتال سے واپس گھر لے چلو۔ یہ الفاظ سر سکندر مرزا نے بستر مرگ پہ لیٹے اپنی بیوی کو مخاطب ہو کر ادا کئے۔ جو پاکستانی سیاست میں 7 دہائیوں سے چلنے والی محلاتی سازشوں اور پتلی تماشوں کے بانی تھے۔
سکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر تھے۔ پہلا آئین نافذ ہوا تو جناب نے صدارت کا حلف اٹھایا۔ طاقت اپنے ہاتھ میں لئے سکندر مرزا نے چند ہی سالوں میں کئی وزرا اعظم کو ایسے تبدیل کیا جیسے سب کی باریاں لگائی ہوں کہ اب تمہاری باری، تم اگلے ہفتے آجانا، تمہیں بھی باری ملے گی۔

پھر کچھ یوں ہوا کہ اپنی ہی چال کی لپیٹ میں ایسے آئے کہ رات کے اندھیرے میں ملک بدر ہو بیٹھے۔ انہیں توڑ کرنا تھا اتفاق سے اس وقت بھی ایک ن کا، فیروز خان نون۔ کہ جو انتخابات ہوجانے پر مقبول لیڈر کی حیثیت سے ابھر سکتے تھے۔ اسی خدشے سے اسمبلیاں توڑیں، مارشل لا لگایا، اور ڈھال کے طور پر ایوب خان کو چیف ایڈمنسٹریٹر لگا دیا۔ مگر پھر دو ہی ہفتوں میں وہی ڈھال سکندر مرزا کو بھاری پڑ گئی۔

یہ تمام باتیں تاریخ کا حصہ ہیں، ان میں کوئی نئی بات نہیں۔ گفتگو کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ انسان خواہ کوئی بھی ہو، کل سے بے خبر ہے۔ طاقت ور، کمزور، ظالم، مظلوم۔ سبھی بے خبر ہیں کہ کل کیا ہوگا۔ کل جو ہمیشہ چند ہی گھنٹوں کی دوری پہ نظر آتی ہے مگر جب تک آ نہیں جاتی تب تک انسان کو اپنی آمد سے بے خبر رکھتی ہے۔ سکندر مرزا جو اپنے وقت میں خدا تھے، اس ملک کے طول و عرض کے حاکم تھے، بستر مرگ پہ لاچار پڑے موت کی آغوش میں بے یار و مددگار چلے گئے۔
کسی نے سبق سیکھا؟ کون سیکھتا ہے سبق؟ کوئی بھی نہیں۔ سکندر مرزا سے لے کر آج تک اس ملک کے حکمرانوں کے یہی روئیے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ طاقت کی چاہت میں تاریخ کے اسباق کو بھلا کر کل کی خبر سے بے خبر، موت کی حقیقت سے منکر ہر کوئی خدا ہی بنا دکھائی دیا۔

~ سامان سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں

سکندر مرزا تو گئے، ایوب خان بھی 11 سال سیاہ و سفید کے مالک رہے اور تاحیات صدر بننے کے خواب کی تعبیر کرنے میں لگے رہے۔ مگر پھر تقدیر نے دور اقتدار میں ہی ذلت و رسوائی کا مزہ چکھا کر طاقت سے محروم کر دیا۔ یحیی خان بھی یہی سوچ لے کر پہنچے۔ بے حد رسوا ہوئے۔ بھٹو بھی آئے یہی سوچ کر کہ سب کی ایسی کی تیسی۔ پھانسی چڑھ گئے۔ ضیا بھی آئے تاحیات صدارت کا خواب لئے، جہاز میں پھٹ کر راکھ ہو گئے۔ پھر بے نظیر اور نواز شریف میں طاقت کی رسہ کشی بھی دیکھنے کو ملی۔ پرویز مشرف بھی بزرگوں کے انجام کو نظر انداز کئے اسی ڈگر پہ چلتے ہوئے سیاہ و سفید کے مالک بنے۔ وہی ہوا۔ خدائی لہجہ رکھنے والے مشرف بھی آخر کو ذلت و رسوائی سے اس ملک سے چل دئیے۔ آج وہ شدید علالت میں ملک سے باہر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ علالت کے باعث خوب دولت بھی کسی کام کی نہ رہی۔ وہ شاید اب اپنے وطن واپس نہ آسکیں گے، سکندر مرزا کی طرح۔

ان باتوں میں آج کے حکمرانوں کے لئے سبق ہے، سبق وہی پرانا جس سے کبھی کوئی مستفید نہیں ہوا۔ انہیں بھی پچھلوں کی طرح یہ احساس نہیں ہو پا رہا کہ یہ بھی یکدم کل کے حکمرانوں کی طرح قصہ ماضی ہو جائیں گے، آخر کتنے مہینے، کتنے سال اسی سلسلے کو کھینچیں گے؟ ملک کو ایسے کہاں تک چلا لیں گے جیسے چلا رہے ہیں۔

جیسے پانی کا ایک نقطہ ابال ہوتا ہے، ویسے ہی عوامی جذبات کا بھی ایک نقطہ ابال ہوتا ہے،جس کے بعد عوام کو سنبھالنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ایوب خان کے آخری دنوں میں دیکھا، جیسا کہ بھٹو کے آخری دنوں میں دیکھا، جیسا کہ مشرف کے آخری دنوں میں دیکھا۔ بس اگر جو نہیں دیکھ پا رہے وہ یہی موجودہ حکمران ہیں۔ سیاسی میدان میں تو ایوب خان نے فاطمہ جناح کو پچھاڑ دیا تھا، مگر کیا وہ آخری دنوں میں ابلتے ہوئے عوامی جذبات کو پچھاڑ سکے؟ جواب نہ میں ہے۔

آج موجودہ حکمران بھی بالکل اسی راستے پر گامزن ہیں جو ایوب خان کا تھا، جو بھٹو کا تھا، جو مشرف کا تھا۔ پہ در پے سیاسی چالوں سے سیاسی میدان میں فاتح کے طور پر قائم و دائم ہیں مگر کیا بھرتے ہوئے عوامی جذبات کو لگام دے پا رہے ہیں؟ آج عوامی جذبات بیروزگاری، مہنگائی اور خاص طور پر ان سب پر حکومتی بے حسی پر ابلنے کو تیار نظر آرہے ہیں۔ مگر حکمران ہیں کہ سیاسی مخالفین کو ہی پچھاڑنے کے نت نئے طریقوں پہ کام کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ عوامی جذبات کے ابال کی انہیں ذرا بھی خبر نہیں، انہیں کل کی خبر نہیں۔ شاید ایک اور سبق تاریخ کے اوراق میں لکھے جانے کو تیار ہو رہا یے۔

‏موصوف صحافی ہیں ، جمہوری اقدار اور گرم چائے پر یقین رکھتے ہیں۔