شہرِقائد میں مون سون کا چھٹا اسپیل ایسا برسا کہ اللہ کی امان، ہر طرف پانی ہی پانی دکھائی دے رہا ہے- بارش کے منہ زور پانی کا جہاں اور جس طرف جی چاہا اس طرف چڑھ دوڑا – بپھرے پانی سے ناں تو پوش علاقے بچے اور نہ ہی کچی آبادیاں محفوظ رہیں- پیر سے شروع ہونے والی بارش نے کراچی والوں کی ایسی درگت بنائی کہ پوچھیں مت -بس اللہ پاک سب خیر کرے –
آج صبح سے صدر پھر اللہ والی چورنگی، طارق روڈ، کورنگی، کالا پل، شاہراہ فیصل، سندھی مسلم سوسائٹی، شاہراہ قائدین، نمائش ، ایم اے جناح روڈ سمیت دیگر جگہوں کا نظارہ کیا- مسلسل بارش کی صورتحال کے دوران مجھ سمیت تمام دوست کچھ ایسی خبریں دیتے رہے –
فلاں جگہ پانی داخل ہوگیا-
فلاں جگہ پانی نے تباہی مچادی-
فلاں جگہ پانی نے کروڑوں کی املاک تباہ کردیں- وغیرہ وغیرہ ۔۔
شہر کے مختلف علاقوں میں پبھرے پانی کے ستائے کئی مجبور اور بے بس چہرے دیکھ کر دل بہت افسردہ ہوا- رہی سہی کسر موبائل پر موصول ہونے والی مختلف علاقوں کی خبریں اور ویڈیوز نے پوری کردی- افسردہ دل کے ساتھ کام بھی جاری رہا اس دوران میں مسلسل پانی کو کوستا رہا-دن بھر یہی کیفیت رہی – تقریباٙٙ 5 بجے گھر پہنچا- نہانے کے بعد آکر لیٹا تو آنکھ لگ گئی-
"میں کھلے سمندر میں ہوں دور دور تک صرف پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے- پہلے تو میں کچھ سمجھ نہ سکا ایسی عجیب کیفیت میں کروں تو کیا کروں ؟
اک چھوٹی سی بوسیدہ کشتی پر میں ؟ یاخدا یہ۔ کیا ماجرا ہے-
اسی اثناء میں میرے کانوں کو ایک آواز سنائی دی کیسے ہو ؟
میں سٹپٹا کر اِدھر ادھر دیکھنے لگا کون ہے ؟
کسی کو نہ پاکر میں حیریت زدہ تھا کہ آواز کس نے دی ؟
آواز پھر آئی – تم مجھ سے کیوں ناراض ہو – کیا مسئلہ ہے مجھ سے؟
اضطراب کی کیفیت مزید بڑھنے لگی- بے ساختہ میری آواز نکلی کون ہو سامنے آو –
ارے ۔ صبح سے مجھے کوس رہے اور پوچھتے ہو کون ہو؟
"میں پانی" ۔۔۔!
مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا- میں نے ایک بار پھر اسکا جملہ دہرایا "پانی"؟
جواب آیا – جی ہاں "پانی" ۔۔
دور دور تک کوئی دکھائی نہیں دے رہا -میں نے زیرِ لب یہ جملہ ادا کیا کہ بھلا پانی کب سے بولنے لگا؟
دوسری طرف سے آواز آئی – جب پانی داخل ہوسکتا ہے-ڈبو سکتا ہے- تباہ بھی کرسکتا ہے تو بھلا بول کیوں نہیں سکتا ؟
میرے اُوسان آہستہ آہستہ بحال ہوئے – میں نے کہا تو کیا غلط کہا- تم نے کئے گھر، گلیاں، دکانیں اور سڑکیں ڈبو دیں- کروڑوں روپوں کی املاک تباہ کریں-سینکڑوں لوگ بے گھر کردیئے اور تو اور کئی جانیں بھی لیں-
جواب آیا- اچھا یہ سب میں نے کیا ؟
ہاں- بالکل تم نے ہی کیا اس میں کوئی شک ہے ؟
آواز آئی – ایک سوالطکا جواب دو – پینے کیلئے،نہانے، دھونے، گھر بنانے، پاک ہونے غرض ہرچیز کیلئے میری ضرورت ہے- اگر ایک دن کیلئے مٙیں تمہاری زندگی سے غائب ہوگیا تو سوچو کیا ہوگا؟
میں نے کہا کہ یہاں بات اہمیت کی نہیں ہورہی بلکہ نقصان کی ہورہی ہے-
پانی بولا – میرا سوال وہی ہے – صرف ایک دن میرے بغیر اپنی زندگی کا تصور کرو اور پھر جواب دو- کیا میرے بغیر کوئی جاندار اپنی زندگی کا تصور کرسکتا ہے؟ اب آجاو دوسری طرف بارش نہ ہو تو گڑگڑا کر دعائیں مانگتے ہو- کچھ گھنٹے آسمان سے پانی برسے اور وہ بھی تمہاری ضرورت کے مطابق تو تم مجھے کوسنے لگتے ہو- اپنی غلطیوں، ناکامیوں اور کوتاہیوں کی ذمہ داری مجھ پر ڈال کر مجھے ہی قاتل، درندہ اور پتہ نہیں کیا کیا کہتے ہو -مٙیں اللہ کی بیش قیمتی نعمت ہوں اور تم ہی مجھے ابرِ رحمت کہتے نہیں تھکتے ہو-جب سنبھال نہیں سکتے تو بار بار اپنی دعائیں کیوں کرتے ہو اور اگر ابرِ رحمت برسے تو ہاہاکار مچا دیتے ہو- شرم کرو -خدا کا خوف کرو – ڈرو اس وقت سے جب تم رب سے مجھے مانگتے مانگتے تھک جاوگے اور مجھے اس قادر مطلق کا حکم نہ ہوا- پھر کیا کرو گے ؟-
اچانک سے میری آنکھ کھل گئی- میں اپنے کمرے میں موجود تھا- تو وہ کیا تھا جو میں نے ابھی دیکھا؟
پورا منظر دوبارہ سے کھلی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگا-
میں اس سارے واقعے پر سوچنے لگا اوراس نتیجے پر پہنچا- کہ یقیناٙٙ "پانی" درست کہہ رہا تھا- ساری غلطی ہماری ہے- ہم واقعی ہی انتہائی نااہل اور نکمے لوگ ہیں۔ ہم اپنے سیوریج کے تباہ حال نظام کے باوجود بارش کی دعائیں مانگتے ہیں۔ ہم نالوں پر تجاوزات قائم کرتے ہیں اور باقی ماندی نالوں کو گندگی سے بھر کر بھول جاتے ہیں۔ ہم اپنے گھر، بلڈنگ، مالز، اسکول، کالجز، یونیورسٹیز اور تو اور سڑکیں بناتے وقت بھی نکاسیِ آب کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے ہیں- اب آجائیں ہم سے زیادہ قابل اور باکمال لوگ ہمارے ووٹوں سے منتخب ہونے والے انتہائی محترم عوامی نمائندے کی جانب جو کہنے کو تو عوامی نمائندے ہیں مگر عوام کیلئے ان کے دل میں زرہ برابر بھی جگہ نہیں ہے۔ ان کی عوام کیلئے خدمات کا اندازہ اس بات سے ہی لگالیں کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے مون سون کی بارشوں کی پیشگوئی کے باوجود کسی قسم کے اقدامات کرنے کی انہوں نے زحمت ہی محسوس نہیں کی۔ بڑا تیر مارا تو ہنگامی حالات کا اعلان کرکے افسران اور عملے کی چھٹیاں منسوخ کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا۔ بس کام ختم ہوگیا- ان کی فطرت سے بخوبی واقف نیچے کے نااہل افسران اور عملے کو بھی پتہ ہے کہ جن صاحب نے یہ حکم جاری کیا ہے وہ خود گھر بیٹھ کر فون پر اپ ڈیٹ لیں گے تو "جیسے پیر ویسے ہی خلیفے" افسران اور عملہ بھی گھر سے بیٹھ کر صورتحال پر صاب بہادر کو سب اچھا ہے اور مسلسل کام ہورہا ہے جیسی اپ ڈیٹ دیتا رہتا ہے- جس کاعملی مظاہرہ آپ نے پیر سے شروع ہونے والی بارش میں خود دیکھ لیا ہے۔
سائیں سرکار ہو یا بھائی لوگ سب ایک جیسے ہیں-
شہرقائد کی کنجی کے مالک ہمارے میئر صاحب جن کے دل میں کراچی کا درد ہے کہ جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا- کراچی کے درد کی شدت ایسی ہے کہ وہ میئر شپ ملنے کے بعد سے رونے لگےاور اسی رونے رونے میں ہی موصوف نے اپنا ٹرن اوور مکمل کرلیا مگر عوام کیلئے مجال ہے کہ کچھ کیا ہو۔
رہی سائیں سرکار تو سائیں تو پھر سائیں ہیں ناں – ایک دہائی سے زائد عرصے سے پیپلزپارٹی صوبہ سندھ کی حکمران جماعت ہے – کراچی کے مسائل پر ان سے سوال کیا جائے تو پی پی پی قیادت، وزیراعلی سندھ اور صوبائی وزراء کی کہیں گئیں بڑی بڑی باتیں عوام کی چھوٹی سمجھ میں گھستی ہی نہیں- وزیراعلی اور صوبائی وزراء کی باتوں سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ انہوں نے کراچی کو دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کی فہرست میں اول نمبر پر پہنچا ڈالا ہے- ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں بس وہ کراچی کے عوام اور خصوصاٙٙ میڈیا کو نظر نہیں آتیں- ان کے مطابق کراچی میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے- بس میڈیا سندھ بالخصوص کراچی کے حوالے سے مثبت رپورٹنگ نہیں کرتا ہے-
اب بھلا کیا بولیں اور کیا کہیں – میرے نزدیک "پانی" کی تمام باتیں ٹھیک ہیں- یہاں تو "آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے" وہ چاہے عام آدمی ہو، سرکاری افسر ہو یا سیاستدان سب کے سب کراچی کی بربادی کے ذمہ دار ہیں اور ہم خواہ مخواہ بیچارے پانی کو برا بھلا کہتے ہیں-