وفاقی دارالحکومت میں ماضی میں شہریوں کو گھروں میں نلوں کے ذریعے پانی ملتا تھا لیکن اب صورت حال بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتر ہو چکی ہے۔ سیکٹر ایچ 13 سمیت کئی سیکٹرز میں گھریلو استعمال کیلئے پانی کی قلت شدت اختیار کر چکی ہے۔ یہاں کے لوگ پانی کے حصول کیلئے ہر ماہ ٹینکرز کو ہزاروں روپے دیتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ مناسب انتظام کا نہ ہونا بھی اس کی اہم وجہ ہے۔
سیکٹر ایچ 8 کے رہائشی محمد قاسم اور ان کے گھر والے جن مشکلات سے گزر کر پانی حاصل کرتے ہیں اس کے متعلق وہی بخوبی جانتے ہیں۔ محمد قاسم کے مطابق وہ پانی نہ ہونے کے باعث ٹینکرز سے پانی خرید کر اسے جمع کرتے ہیں۔ بقول محمد قاسم وہ ہر چار دن بعد گھریلو استعمال کیلئے ٹینکرز سے 2500 روپے فی ٹینکر کے حساب سے پانی خریدتے ہیں۔
محمد قاسم نے بتایا کہ میں گھریلو استعمال کیلئے پانی ٹینکرز سے خریدتا ہوں جس سے صرف کپڑے دھونے اور نہانے کی ضرورت پوری ہوتی ہے جبکہ پینے کے صاف پانی کیلئے بوتلیں سیکٹر جی 13 سے بھر کر لانا پڑتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پینے کے صاف پانی کی ضرورت کو پورا کرنا کافی محنت طلب کام ہے۔ حکومت کو بھاری ٹیکس دینے کے باوجود بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اس لئے انہیں پینے کا پانی بھی خریدنا پڑتا ہے۔
اسلام آباد میں ' پانی دو تحریک' کا آغاز کیوں ہوا؟
اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں جہاں لوگوں کو پانی کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے وہاں پانی کے حصول اور انتظامیہ کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کیلئے ' پانی دو تحریک' کے نام سے تحریک کا آغاز ہوا ہے۔ تحریک کے بانی احسن واحد نے بتایا کہ انتظامیہ ایک جانب خود پانی فراہم نہیں کرتی اور دوسری جانب یہ مسئلہ حل کرنے کے بجائے زیر زمین پانی حاصل کرنے کیلئے بورنگ پر پابندی بھی عائد کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے سیکٹر ایچ 13، جی 13 اور سیکٹر جی 10 سمیت باقی سیکٹرز کے لوگ ہزاروں روپے ماہانہ میں پانی کے ٹینکرز خریدنے پر مجبور ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ گھریلو استعمال کے علاوہ پینے والے پانی کے فلٹریشن پلانٹ بھی موجود نہیں، اس لئے لوگ دور دراز سیکٹرز سے پانی لانے پر مجبور ہیں۔ بقول احسن واحد زیر زمین پانی نکالنے کیلئے کچھ ماہ قبل بورنگ کے دوران خام تیل نکلنے کے بعد اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے بورنگ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
'پانی کی قلت کی بڑی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے'
ڈائریکٹر جنرل واٹر مینجمنٹ سردار خان نیازی کے مطابق اسلام آباد میں پانی کی کمی کی سب سے بڑی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے کیونکہ 13 لاکھ آبادی والے شہر کیلئے سی ڈی اے کے پاس روزانہ کے حساب سے 80 ملین گیلن سے زیادہ پانی موجود ہی نہیں جبکہ پانی کی طلب 120 ملین گیلن روزانہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے 20 سالوں سے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے کوئی ڈیم بنا اور نا ہی اس جانب کوئی توجہ دی گئی۔ پانی کے ذرائع کے طور پر ہمارے پاس صرف خان پور ڈیم، سملی ڈیم اور 200 کے قریب ٹیوب ویل موجود ہیں۔
اسلام آباد میں واٹر فلٹریشن پلانٹس کتنے ہیں؟
ڈائریکٹر جنرل واٹر مینجمنٹ سردار خان زمری نے بتایا کہ اسلام آباد کے شہری علاقوں میں 95 سے زائد واٹر فلٹریشن پلانٹ موجود ہیں جو یہاں کے لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہر سیکٹر میں فلٹریشن پلانٹ موجود ہے اور گزشتہ چند سالوں میں مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر بھی یہ کام کیا جا رہا ہے۔ میں خود سیکٹر جی 6 کا پانی دیگر مکینوں کی طرح اپنے گھر کے نلکے سے ہی پیتا ہوں کیونکہ یہ پانی مکمل صاف ہے۔ جہاں پانی کے مسائل ہیں ان کے لئے متبادل ذرائع سے پانی کی سپلائی کو یقنیی بنایا جا رہا ہے۔ سی ڈی اے پانی کو جمع کرنے کیلئے پچھلے تین سال سے کام کر رہا ہے اور اب تک تقریباً 10 ملین گیلن پانی کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
بورنگ پر پابندی کیوں لگائی گئی؟
سردار خان زمری نے بتایا کہ اسلام آباد میں لوگ زیر زمین پانی حاصل کرنے کیلئے بورنگ پر انحصار کر رہے ہیں لیکن رواں سال اسلام آباد میں زیر زمین پانی کی سطح 2 سے 3 فٹ کم ہونے کی وجہ سے ہم نے بورنگ پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ پابندی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں لگائی گئی ہے۔ اب جو فرد زیر زمین پانی حاصل کرنے کیلئے بور کرے گا وہ سی ڈی اے سے باقاعدہ این او سی حاصل کرے گا جس کے بعد ہماری ٹیم معائنہ کرے گی تا کہ پتہ لگایا جا سکے کہ بورنگ سے کتنا پانی نکالا جا رہا ہے۔ البتہ صرف گھروں کے اندر نارمل بورنگ کی اجازت ہے جبکہ باقی کمرشل علاقوں میں بورنگ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
کیا بور کے ذریعے پانی نکالنے پر بھی فیس دینی پڑے گی؟
سردار خان زمری نے اس حوالے سے بتایا کہ ایم سی آئی (میٹرو پولیٹن کارپوریشن اسلام آباد) نے موٹر کی ہارس پاور/ پانی سپلائی کے قطر کے اعتبار سے کیٹگریز کے الگ الگ واٹر چارجز مقرر کر دیے ہیں۔ اس وقت شہری معمول کی واٹر سپلائی کی لائن کے علاوہ موٹر سے اضافی پانی بھی نکالتے ہیں جو مفت ہے۔ نصف ہارس پاور کی موٹر اور ایک انچ قطر کے پائپ پر رہائشی مقاصد کیلئے استعمال پر ایک ہزار روپے ماہانہ واٹر چارجز ہیں جبکہ دو ہارس پاور اور دو انچ قطر والے پائپ پر 2500 اور کمرشل استعمال پر چار ہزار روپے چارجز مقرر کیے گئے ہیں۔
آبی وسائل کا بے دریغ استعمال
سردار خان زمری نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پانی کی اتنی قلت کے باوجود اس کا بے دریغ استعمال جاری ہے۔ روزانہ لوگ گاڑیاں اور گھر دھونے میں بے تحاشا پانی پائپ کے ذریعے ضائع کر رہے ہیں۔ پینے کی پانی کی قلت اور پانی کے ضیاع پر اب سی ڈی اے کی جانب سے ایسے صارفین کو دس ہزار روپے تک جرمانہ بھی کیا جا رہا ہے۔
' آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیاں پانی کی کمی کی وجوہات ہیں'
موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی پر کام کرنے والی ماہر عافیہ سلام کے مطابق آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، اس وقت اگر وفاق کے حالات ایسے ہیں جہاں پانی کی کمی کے آثار نظر آ رہے ہیں تو اس کی بڑی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ مناسب دیکھ بھال نہ ہونا ہے۔ انہوں نے غیر متوقع بارشوں اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو بھی پانی کے بحران کا سبب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے گلیشیئرز کا حد سے زیادہ پگھلنا اب ایک حقیقت بن چکا ہے جس کی وجہ سے ہم کئی مرتبہ گلوف (گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ) کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہمارے پاس صاف پانی کا جو ذخیرہ ہے اگر وہ پگھل کر دریاؤں میں بہہ کر نکل گیا تو صرف خشک پہاڑ رہ جائیں گے اور ہم پانی سے محروم ہو جائیں گے کیونکہ ہمارے سسٹم کے اندر مون سون کی بارشوں سے 30 سے 35 فیصد پانی حاصل ہوتا ہے جبکہ باقی کا پانی برف پگھلنے سے آتا ہے۔ اس لئے ہمیں پانی کو بچانے کیلئے اس کو سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے۔
انہوں نے پانی کی کمی کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ بھی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو پانی بخارات کی شکل میں گرمی کی وجہ سے اوپر چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے بارشیں وافر مقدار میں ہوتی ہیں اور سیلاب کے صورت حال بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ پانی ریلے کی شکل میں تباہی مچاتا ہے جس سے زیر زمین ذخائر بھی ریچارج نہیں ہوتے۔
'پانی کا بے دریغ استعمال قلت کی اصل وجہ ہے'
ماحولیاتی معاملات سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے صحافی آصف مہمند نے پانی کی کمی کی بڑی وجہ غیر مؤثر استعمال کو قرار دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر سال 2021 اور 2022 کو دیکھ لیں تو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پانی پر موجود تھے کیونکہ 2022 میں سیلاب کی وجہ سے کافی تباہی مچی تھی، اب پاکستان کو آنے والے دنوں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ آصف کہتے ہیں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پانی زراعت پر ضائع ہوتا ہے کیونکہ پاکستان میں زرعی زمینوں کو ختم کر کے اس پر ہاؤسنگ سوسائیٹز بنائی گئی ہیں۔ جہاں پر پانی کی کمی ہے وہاں ہم زیادہ ٹیوب ویلز لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی غیر معیاری استعمال کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ان 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں لوگوں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر پانی کا ضیاع اسی طرح جاری رہا تو مستقبل میں پاکستان پانی سے مکمل طور پر محروم ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد میں پانی کے مسئلہ کا ایک حل واٹر ٹینکر ہے لیکن یہ بھی اس کمی کو دور کرنے کیلئے ناکافی ہے۔ شہر کے کئی حصوں میں پانی کی سپلائی نہ ہونے کے باعث بہت سے رہائشی اب بھی غیر قانونی طور پر زیر زمین پانی کیلئے بورنگ جیسے متبادل ذرائع پر انحصار کر رہے ہیں، تاہم وقت کے ساتھ زیر زمین پانی کی سطح بھی کم ہو چکی ہے۔
پاکستان کے بہت سے شہروں اور علاقوں میں پانی کی ناکافی دستیابی کی وجوہات صرف ماحولیاتی تبدیلی یا زیر زمین پانی کی سطح کا کم ہو جانا ہی نہیں بلکہ آبی وسائل کی ناقص دیکھ بھال، انہیں آلودہ کرنا اور پانی کا غیر ذمہ دارانہ استعمال بھی اس قلت کی اہم وجوہات ہیں۔