پاکستانی سول سوسائٹی نے مانسہرہ میں ایک دس سالہ لڑکے کے ساتھ جنسی درندگی کے پیش آنے والے واقعے کی سخت مذمت کی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک اعلی سطحی کمیشن بناءے، جو اس طرح کے تمام واقعات کی مکمل چھان بین کرے۔
چائلڈ رائٹس موومنٹ کے نیشنل کوارڈینیٹر ممتاز گوہر نے بی بی سی کو بتایا یہ واقعات پہلے بھی پیش آ رہے تھے اب بھی آ رہے ہیں لیکن اب لوگ کسی حد تک یہ واقعات تو رپورٹ کر دیتے ہیں لیکن اب اخبارات ایسی خبروں کو کم کوریج دیتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ 2019 کے پہلے چھ ماہ میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے 1300 سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں جبکہ 2018 کے پہلے چھ ماہ میں یہ تعداد 2300 سے زیادہ تھی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ تقریباً 85 اخبارات کی مانیٹرنگ کرتے ہیں اور ان میں بیشتر اخبارات کے صفحات کم ہوئے ہیں اور اشتہارات بڑھ گئے ہیں جس وجہ سے اس طرح کی خبروں میں صرف وہ خبریں چھپتی ہیں جن میں یا قتل ہو یا کوئی تشدد ہو یا کچھ ایسی انہونی بات ہو تو اخبارات میں رپورٹ ہو جاتی ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے 3800 واقعات پیش آئے تھے۔
ممتاز گوہر کے مطابق پاکستان میں ایسے علاقے ہیں جہاں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں لیکن وہ رپورٹ نہیں ہوتے اور وہ لوگ پھر خود بدلہ لیتے ہیں کیونکہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ انھیں کہیں سے انصاف نہیں مل سکے گا۔ قصور میں زینب کے واقعہ کے بعد قانون سازی میں بہتری لائی گئی لیکن ماہرین کے مطابق عملی طور پر اب تک زیادہ اقدامات نہیں کیے گئے تاکہ اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکے۔
دوسری جانب جوڈیشل مجسٹریٹ نے مدرسہ کے کم سن طالب علم سے زیادتی کے الزام میں گرفتار استاد قاری شمس الدین کو 5روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔ پیر کو مانسہرہ میں پولیس نے بچے سے زیادتی کیس کے ملزم کو سخت سکیورٹی میں مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا اور 14 دن کے ریمانڈ کی استدعا کی۔ عدالت نے 14 روز کی بجائے 5 دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ملزم کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ پراسیکیوٹر محسن مصطفیٰ نے کہا کہ ملزم کا ڈی این اے کرایا جائے گا اور اسے تین دن تک گرفتاری سے بچانے اور پناہ دینے والوں کو بھی شامل تفتیش کیا جاسکتا ہے۔
چند روز قبل مانسہرہ کے ایک مدرسے میں 10 سالہ بچے سے مبینہ طور پر بدفعلی اور تشدد کا واقعہ پیش آیا جس کے الزام میں استاد قاری شمس الدین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد پولیس نے مدرسہ کو سیل کردیا ہے۔ بچے پر اس قدر بہیمانہ تشدد کیا گیا کہ اس کی آنکھوں پر زخم پڑگئے اور سرخ ہوگئیں۔ مدرسے کی انتظامیہ کی جانب سے ملزم کی گرفتاری میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ جبکہ جے یو آئی رہنما مفتی کفایت اللہ نے کہا کہ زیادتی قاری شمس الدین نے نہیں کی بلکہ کسی دوسرے طالب علم نے بچے پر تشدد کیا ہے۔