خصوصی عدالت نے جنرل پرویز مشرف کو آئین شکنی میں مجرم مانتے ہوئے سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔ اس پر عسکری ترجمان نے پہلے ایک خصوصی پریس ریلیز جاری کر کے پرویز مشرف کی ملکی خدمات کا تذکرہ کیا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ کبھی غدار نہیں ہو سکتے۔ پھر 48 گھنٹوں کے بعد تفصیلی فیصلہ آیا تو اس کے پیرا 66 کی روشنی میں عسکری ترجمان نے بقلم خود قوم کو بتایا کہ پیرا66 میں شامل الفاظ انسانیت، مذہب اور تہذیب و اقدار کے منافی ہیں اور یہ کہ ملک کو 'ہائبرڈ جنگ' کا سامنا ہے مگر فوج ملک دشمنوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
عسکری ترجمان نے قوم کو یہ بھی بتایا کہ فوج ادارہ نہیں بلکہ خاندان ہے۔ انہوں نے نام لیے بغیر اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی ملکی مفاد کے برعکس ہونے والی منصوبہ بندی کے علم میں ہونے کا تذکرہ بھی کیا اور زور دے کر کہا کہ فوج ادارے کی عزت و وقار کا دفاع کرنا جانتی ہے۔
میری ذاتی رائے میں قانون، مذہبی اور اخلاقی اقدار کے منافی الفاظ میں تحریر کیے گے پیرا66 میں بغض اور عناد کے علاوہ انتقامی خواہش کا تاثر بھی ملتا ہے۔ آج کے پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اگر معزز جج صاحب پیرا 66 نہ بھی لکھتے تو یہ تاریخی فیصلہ ہوتا مگر ان الفاظ نے اس فیصلے کے آئینی، قانونی اور اخلاقی پہلو پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
اس کو پڑھ کر ایسا تاثر ملا جیسے کہ یہ پاکستان نہیں کوفے کا بازار یا پھر مصری بلواہیوں کی آماجگاہ ہو۔ مانا کہ مسلمانوں کی تاریخ میں اگرچہ نعشوں کی پامالی بغداد اور احد میں ہوئی، ابن زیاد کے دارالامارہ اور کربلا میں ہوئی، بنو امیہ، بنو عباس اور سلطنت عثمانیہ میں بھی ہوئی مگر اسلام نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ آج کے پاکستان میں تو ابی نندن جیسے دشمنوں کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا گیا تو پھر ایک ریٹائرڈ سپہ سالار کے لیے اسطرع کے ہتک امیز الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
میری رائے میں عدالت نے تفصیلی فیصلے میں اس طرح کے الفاظ استعمال کرکے اپنی توہین پہلے خود کی ہے اور پھر عسکری ترجمان بھی اس پر اپنی قیمتی رائے دے کر توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہمارے سابقہ چیف جسٹس نے میاں نوازشریف کی بیرون ملک روانگی کے بعد حکومتی مؤقف کا جواب دیتے ہوئے جو تقریر کی اس میں متکبرانہ عنصر شامل تھا۔ معزز کھوسہ صاحب کا اپنی ایک تقریر میں جنرل کرامویل کا تذکرہ یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ اتنے بے خبر اور لاتعلق نہیں تھے جس کا ابھی وہ ظاہری طور پر تاثر دے رہے ہیں۔ خاص طور پر تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے اگلے دن جسٹس وقار سیٹھ کو فیصلے کے پس منظر پر کوئی تبصرہ زیب نہیں دیتا تھا۔ اسں طرح کے خیالات کا اظہار کر کے معزز جج صاحب نے ایک پڑھے لکھے پاکستانی کی نظر میں صرف رسوائی کمائی ہے جو معزز عدلیہ کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔
بد قسمتی سے ہماری سب سے اعلی ترین عدلیہ بھی ماضی میں آئین شکن جرنیلوں کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔ ہمارے ملک میں نظریہ ضرورت اسی سپریم کورٹ کی ہی دریافت ہے جس کی وجہ سے ایک نہیں چار دفعہ سپہ سالار آئین توڑنے کا جرم سرزد کر چکے ہیں۔
درحقیقت فاضل جج نے جو پیرا لکھا ہے اس سے فیصلے کی روح کا گلا گھونٹ دیا ہے۔
ان سب باتوں کے باوجود ایک آمر کے خلاف اس طرح کا تاریخی فیصلہ ان قابل اعتراض الفاظ کی وجہ سے خاطر رد نہیں کیا جاسکتا۔ یہ فیصلہ پاکستانی تاریخ میں بھونچال کے مترادف ہے اور ایک خوش آئند تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ اس سے پہلے یہ ناقابل تصور تھا کہ پاکستان میں ایک امر کو جس نے آئین توڑا ہو یا معطل کیا ہو غدار قرار دے کر سزائے موت سنائی جا سکے۔ عسکری ترجمان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ فیصلہ کسی مجلس، جرگے یا اجتماع نے نہیں دیا بلکہ معزز عدالت کا ہے جس کی حیثیت ہاہیکورٹ کے برابر ہے۔
پاک فوج کی قربانیاں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ افوج پاکستان نے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے بلکہ سیلاب اور زلزلے میں مثالی کام کیا ہے۔ اس فوج کے نام کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کر کے مارشل لاء لگانے یا کوئی دوسرا غیر آئینی اقدام کرنے والا سپہ سالار اس فوج کا محسن کیسے ہو سکتا ہے؟ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ملک کے لئے جنگیں لڑنے والے دغا باز اور غدار ہو سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو فوج کے ایک لیفٹینٹ جنرل کو15 سال کی سزا نہ سنائی جاتی اور نہ ہی ایک بریگیڈیر کو سزائے موت ہوتی۔
حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ادارہ ضبط کا مظاہرہ کرے۔ ایک معزز عدالت نے ایک امر کو اس کے عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور کسی بھی معاشرے میں انصاف کی فراہمی میں یہ ایک بنیادی عمل ہے۔ اس میں کسی ادارے کو کوئی داغ نہیں لگا بلکہ اسے ایک موقع فراہم ہوا ہے کہ وہ کسی شخصی غیر آئینی قدم سے اپنے آپ کو الگ کر لے۔ تمام قانونی دروازے کھلے ہیں۔ ہم مانیں یا نہ مانیں مگر اس تاریخی فیصلے کی ایک علامتی اہمیت ہے۔ غیرضروری جذبات، الفاظ اور اقدامات ریاست کے لیے پریشانی کا باعث ہونے چاہیے۔ ہم تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑے ہیں جہاں حکومت کا ایک قدم جمہوریت کو دو قدم پیچھے لے جا سکتا ہے۔
عسکری ترجمان کے اپنی ہی قوم کو یہ الفاظ کہ فوج ملک اور ادارے کے وقار کا دفاع کرنا جانتی ہے اگر ماضی کے پس منظر میں دیکھے جائیں تو مشرقی پاکستان اور کارگل جیسے سانحے فوج کے لیے شرمندگی کا باعث تھے اور ہیں۔ میری ذاتی رائے میں جو ماتم اور شام غریباں برپا ہے اس میں پیرا 55 اور 56 کا بھی ہاتھ ہے جہاں ان سینئر افسروں کا تذکرہ کیا گیا ہے جنھوں نے آئین شکنی میں مشرف کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے وہ بھی آئینی اور قانونی طور پر مجرم اور سزا کے حقدار ہیں۔ مانا کہ پیرا 66 لکھ کر جسٹس وقار نے دنیا کے سامنے عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے جس کے لئے تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کر سکتی مگر یہ عسکری ادارے کے کردار کا بھی امتحان ہے۔ یہ معاملہ پرویز مشرف کی ذات کا ہے یا پھر فوج کا فیصلہ ادارے نے کرنا ہے؟ راولپنڈی، اسلام آباد اور دوسرے شہروں میں جنرل پرویز مشرف کے حق میں بینرز کا لگ جانا قوم کو کوئی اچھا تاثر نہیں دے رہا ہے۔
کسی شخص یا ادارے کے کردار کی مضبوطی کا پتہ مصیبت کے آنے کے بعد ہی چلتا ہے۔ اب جنرل پرویز مشرف کی اچھائیوں کو گنوانے اور انکے کارناموں کا ذکر کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ عسکری ادارے کو نئی حکومت کے آتے ہی اس کیس کے بارے میں بات کرنی چاہیے تھی جہاں وفاقی حکومت یہ کیس لڑنے میں غیر دلچسپی کا مظاہرہ کرتی۔ درحقیقت وفاقی حکومت اور عسکری اداروں نے عدالت کی حیثیت کو نہ سمجھا اور وہ قیمتی وقت گزار دیا۔ سابقہ چیف جسٹس نے جنرل کرامویل کا ذکر کیا تو بھی اس کی بات کو صحیح پیرائے میں نہ ہی وفاقی حکومت سمجھ سکی اور نہ ہی فوج۔ میاں نواز شریف کی ضمانت کے فورا بعد حکومتی ردعمل پر کھوسہ صاحب نے جنرل مشرف کے خلاف ممکنہ فیصلے کی بات بھی کی۔ نا سمجھی کی یہ روش ان تین دنوں میں بھی چلتی رہی جب سپہ سالار کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ چل رہا تھا اور اس وقت تک چلی جب تک کہ بلی تھیلے سے باہر نہ آ گئی۔
یہاں سب سے اہم سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کوئی" بنانا ریپبلک" نہیں ہے۔ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی ریاست ہے۔ آج کے پاکستان میں تسلسل سے یہ واقعات کیوں ہو رہے ہیں؟ کھوسہ صاحب نے تو ایک سال کوئی از خود نوٹس تک نہیں لیا اور چپ کا روزہ رکھا ہوا تھا۔ اچانک کیسے انصاف کی تڑپ ان کے تحت الشعور میں داخل ہو گی؟ سپیشل کورٹ کے جج صاحب نے جو کچھ لکھا وہ اپنی جگہ لیکن اس سے بڑا ایشو یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ ہماری حکومت یہ سب کچھ روکنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوئے؟ کیوں وہ اقدامات نہیں کیے جا سکے جہاں اس طرح کے الفاظ عوام کے سامنے نہ آتے؟ ان سب چیزوں کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اور جو ہو گیا ہے کیا کوئی اس کے لیے جواب دے ہو گا؟ کیا آئندہ کوئی گارنٹی دے گا کہ اس طرح کے معاملات دوبارہ نہ ہوں جہاں ملک کے دو بڑے اور سب سے طاقتور ادارے ایک دوسرے کے سامنے آ جائیں۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہو گا جب ان حالات کے ذمہ داروں کے خلاف ریاست کھڑی ہو گی۔ بندوق اور ترازو اس وقت آمنے سامنے آ چکے ہیں اور ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ بندوق چلانی پڑے اور نہ ہی ترازو کو اپنا کوئی پلڑا غیر ضروری طور پر بھاری کرنا پڑے۔ ضروری ہے کہ حکومت بھی نہ بندوق کا ساتھ دے اور نہ ہی ترازو کی طرف جھکے۔
امید ہے کہ جنرل مشرف کی طرف سے دائر ممکنہ اپیل میں اعلی عدلیہ ان غیر مہذب الفاظ کو حذف کر کے فیصلے کی اصل روح اور حیثیت کو بحال کردے گی۔ تاہم عصیبت اور نوحہ خواہی کا مظاہرہ ادارے اور ملکی مفاد میں نہیں۔