پیر کو سینیٹ کے اجلاس میں بات کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے سٹیٹ بینک ترمیمی بل 2022 کے پاس ہونے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ آئٹم ایجنڈے پر موجود نہیں تھی لیکن راتوں رات اس کو ایجنڈے پر لایا گیا اور اس وقت انہیں علم نہیں تھا کہ یہ صبح ایجنڈے پر ہونے جا رہا تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ سینیٹ میں اس روز حاضری یقینی نہیں بنا سکے۔
اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا میں ایک واٹس ایپ میسج گردش کر رہا ہے جس کے مطابق میرے دفتر سے اپوزیشن سینیٹرز کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ 28 جنوری کو سینیٹ میں اپنی حاضری یقینی بنائیں۔ لیکن اس پیغام میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ ایجنڈا کیا تھا اور نہ ہی مجھے علم تھا کہ ایجنڈا کیا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک الزام کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے وزرا جو یہاں موجود ہیں وہ ضرور جواب دیں لیکن وہ وزرا جن کی کوئی credibility نہیں ہے، ان کو الزامات نہیں لگانے چاہئیں۔
یوسف رضا گیلانی نے سینیٹ چیئرمین کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کو اس بل کی حمایت میں ایسے حالات میں ووٹ نہیں دینا چاہیے تھا جب دونوں جانب سے ووٹ برابر تھے کیونکہ بطور سینیٹ چیئرمین وہ نائب صدر بھی ہیں اور صدر کی غیر موجودگی میں وہ پورے ملک کے صدر ہوتے ہیں لہٰذا انہیں خود کو غیر متنازع رکھنا چاہیے تھا۔ شاہ محمود قریشی کا نام لیے بغیر ان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس بل کے پاس ہونے کا کریڈٹ مجھے دیا جا رہا ہے کہ میں نے غیر حاضر رہ کر اس کو یقینی بنایا لیکن میرے نزدیک یہ کریڈٹ چیئرمین سینیٹ کا ہے جنہوں نے اپوزیشن ارکان کی تعداد زیادہ ہوتے ہوئے اجلاس کو معطل کیا اور اس کے لئے ووٹ بھی دیا۔ "یہ بل آپ نے پاس کروایا ہے، اس کا کریڈٹ آپ کو ہی جاتا ہے۔ دھاندلی ہو رہی ہے"۔
اس کے بعد یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میں مزید اس ایوان میں لیڈر آف دی اپوزیشن نہیں رہنا چاہتا اور اپنا استعفا پارٹی کو دے دیا ہے۔ یاد رہے کہ عہدہ چھوڑنے کے لئے استعفا چیئرمین سینیٹ کو جمع کروانا ضروری ہے۔
بالآخر فال گیلانی صاحب کے نام نکلی کیونکہ قریشی صاحب کو اس وقت بھی اسٹیبلشمنٹ کے ضرورت سے زیادہ قریب سمجھا جاتا تھا۔
جمعے کی شام اس بل کے پاس ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے جیو نیوز پر شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن ارکان کے ووٹ سے یوسف رضا گیلانی لیڈر آف دی اپوزیشن بنے، وہ ماضی میں بھی ہر بار قانون سازی میں حکومت کے ساتھ ووٹنگ کرتے رہے ہیں اور اس بار بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ "میں پہلے بھی پارٹی کے اندر بھی کہہ چکا ہوں اور ٹی وی پر بھی کہا ہے کہ ہمیں ان ووٹوں سے گیلانی صاحب کو منتخب نہیں کروانا چاہیے تھا۔ ہم میڈیا میں آ کر لوگوں کو اپنے مؤقف سے کیسے قائل کریں جب ہم خود ہی قائل نہیں ہیں"۔
تاہم، پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق یوسف رضا گیلانی صاحب نے اپنا استعفا پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بھیجا تھا جس کو قبول نہیں کیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کو پارٹی کی جانب سے بطور اپوزیشن لیڈر کام جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
شاہ محمود قریشی اور یوسف رضا گیلانی کے مابین سیاسی دشمنی نئی نہیں۔ دونوں ہی نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز 1980 کی دہائی میں کیا اور دونوں ہی اس وقت کی ضیائی مسلم لیگ کا حصہ تھے۔ البتہ شاہ محمود قریشی بعد ازاں مسلم لیگ کا ہی حصہ رہے تو یوسف رضا گیلانی نے اپنے لئے پیپلز پارٹی کا انتخاب کیا۔ شاہ محمود قریشی کو لیکن مسلم لیگ میں ملتان کے تیسرے مخدوم جاوید ہاشمی سے سخت مقابلے کا سامنا رہا اور رفتہ رفتہ جب انہوں نے دیکھا کہ جاوید ہاشمی نواز شریف کے زیادہ قریب ہو گئے ہیں اور نواز شریف کے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات وہ نہیں رہے جو کسی زمانے میں ہوا کرتے تھے تو انہوں نے 1993 میں مسلم لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی جہاں وہ جاوید ہاشمی کی جگہ یوسف رضا گیلانی کے رقیبِ خاص رہے۔ جاوید ہاشمی سے ان کی سیاسی دشمنی حلقے کے اندر براہِ راست تھی لیکن گیلانی کے ساتھ رقابت ملتان اور پھر قومی سطح کی رہی۔ 2008 میں بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی میں وزارت عظمیٰ کی دوڑ لگی تو مخدوم امین فہیم اور چودھری احمد مختار کے ساتھ یہ دونوں صاحبان بھی لائن میں تھے۔ بالآخر فال گیلانی صاحب کے نام نکلی کیونکہ قریشی صاحب کو اس وقت بھی اسٹیبلشمنٹ کے ضرورت سے زیادہ قریب سمجھا جاتا تھا۔ احمد مختار کو ملی وزارتِ دفاع اور امین فہیم کو وزارتِ تجارت۔ شاہ محمود قریشی کو وزیرِ خارجہ بنا دیا گیا۔ وہ خود کو گیلانی صاحب کے ہم پلہ سمجھتے تھے۔ لیکن پارٹی کے لئے گیلانی صاحب کی خدمات کا اعتراف کیا جا رہا تھا جو جنرل مشرف کے دور میں کئی سال جیل میں گزار کر آئے تھے۔
آخر 2011 میں شاہ محمود گیلانی صاحب کی پارٹی چھوڑ گئے۔ اسامہ بن لادن کے معاملے پر گیلانی صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا تو وہ بھی ملتان کے ایک اور جاوید ہاشمی بن گئے جو کہ مشرف دور میں ہی اسٹیبلشمنٹ پر شدید تنقید کے باعث بغاوت کے مقدمے میں جیل رہ چکے تھے۔ گیلانی بھی باغی ہوئے تو شاہ محمود ملتان کی گدی کے تن تنہا وارث ہو گئے۔ آج وہ گیلانی کی سبکی کے لئے خصوصی طور پر بیانات داغ رہے ہیں تو یہ اپنے ایک مخالف کو پچھاڑنے کی کوشش ہے یا یہ خوف کہ اسٹیبلشمنٹ کو اب ملتان سے ایک اور گدی نشین اتنا ہی تابعدار مل گیا ہے جتنا قریشی صاحب کے دعوے کے مطابق صرف وہی ہو سکتے ہیں؟