نیا پاکستان اور نئی نوکریاں‎

نیا پاکستان اور نئی نوکریاں‎
طویل غیر حاضری کی بہت معذرت کہ تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے۔ نو سے پانچ اور پانچ سے نو کے گرداب میں کچھ ایسے پھنسے کہ کہیں کے نہ رہے۔ گھر جاتے تھے تو بس کھانا زہر مار کرتے تھے اور بستر مرگ پر ڈھیر ہو جاتے تھے۔ صبح اٹھتے ہی پھر سے گھن چکر کھانے کے لئے کمر بستہ ہو جاتے تھے۔ مڈل کلاس کی زندگی کی یہی کہانی ہے۔ کوئی آج کے بل کے لئے تگ و دو کرتا ہے تو کوئی کل کے بڑھاپے میں نہ رلنے کا سامان پیدا کرتا ہے۔ کسی کے پاس بچوں کی فیس کا رونا ہے تو کوئی ڈاکٹروں کی فیس کے گرد طواف کاٹ رہا ہے۔

اصل رونا (اب تک) نوکری کا ہی تھا

ہماری کلاس میں تو ہوش سنبھالتے ہی بچوں کے دل میں یہ ڈال دیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر بنو یا انجینئر۔ اس کی خاطر اپنی ہر ہڈی کو گھول دو لیکن کرو یہی۔ معاشرے کی خدمت کا درس بھی کانوں میں ڈالا جاتا ہے لیکن ان پیشوں کو چننے کا بنیادی مقصد معاشی ہی ہوتا ہے۔ سچ بولنے کی گستاخی معاف کیجئے گا لیکن ہم تو خدا لگتی ہی کہیں گے۔ جس نکتے اچ گل مکدی اے او نکتہ نوکری دا اے۔

گنے چنے چیدہ چیدہ لوگوں کو ہی مملکت نیا پاکستان میں آنے کا شرف بخشا جائے

لیکن کچھ دنوں سے ہم ذرا لائٹ محسوس کر رہے ہیں اس لئے سوچا کہ آج کچھ لکھ بھی ڈالیں۔ جی نوکری کی فکر سے اب ہم آزاد ہیں کیونکہ یہ نیا پاکستان ہے۔ نئی امنگیں نیا ولولہ ہے۔ نوجوان قیادت پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ یہاں ایک کروڑ نوکریاں فراہم کی جائیں گی۔ امریکہ اور برطانیہ کے طول و عرض سے یہاں کا رخ کیا جائے گا۔ ہمارا تو دل ہے کہ حکومت امیگریشن بھی آفر کرے۔ بھئی اتنے لوگوں کو بڑھانا کہاں ہے؟ رش کا سدباب یونہی ممکن ہے کہ گنے چنے چیدہ چیدہ لوگوں کو ہی مملکت نیا پاکستان میں آنے کا شرف بخشا جائے۔

مغربی ملک سے تعلق رکھنے والی خاتون پاکستان ائرپورٹ پر اترتے ہی کسٹم کے محکمے میں بھرتی۔ (چند سال بعد)


پنجابی اپنی پگ میں لگے داغوں کو مزید گہرا کر لیں

مدینہ کی طرز پر قائم کی جانے والی یہ برطانوی جمع نئی پاکستانی ریاست اپنی ذات میں انجمن ہو گی۔ یہاں تو نقشہ بھی بدلے گا۔ قائد اعظم ثانی کے ذہن میں پنجاب کی دوسری تقسیم کا آئیڈیا بھی ہے۔ جی جناب، 1947 کے بعد پیش خدمت ہے 2018۔ بچے کھچے پنجاب میں سے جنوبی پنجاب کو بھی نکالا جائے گا اور خوب واہ واہ سمیٹی جائے گی۔ اس کے لئے اسمبلی کی جس دو تہائی اکثریت کی حمایت کی ضرورت ہے وہ بھی آتی رہے گی۔ پریکٹیکل اگلے باب میں بیان کیا جائے گا۔ فی الحال اسی پر اکتفا کیجئے۔ پنجابی اپنی پگ میں لگے داغوں کو مزید گہرا کر لیں جناب۔

ملک کو جن ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے ان کے لئے بھی ایک بلین درختوں کا سونامی تیار ہے۔ طوفان سے کم تو بات ہی نہیں ہو گی باس۔ یہ آندھیاں، یہ طوفان، یہ زلزلے۔۔۔ آہا، جب بھی آنا ہے اور سے ہی آنا ہے۔

قومی خزانے کی تو سمجھ میں ہی نہیں آنا کہ کہاں جائے، ایک تو کرپشن ختم اوپر سے اتنی آمدن۔

پرائم منسٹر اور چیف منسٹر ہاؤس کو بھی پلاٹوں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ آٹھ سو کنال کا پرائم منسٹر ہاؤس اور تین سو کنال کا بھی بنی گالہ اگر بیچا جائے تو دو چار ڈیم تو انہی میں سے نکل آئیں گے۔ مناسب گاہک نہ ملے تو وقتی طور پر یہاں کماد اور گندم کی فصل بھی کاشت کی جا سکتی ہے۔ قومی خزانے کی تو سمجھ میں ہی نہیں آنا کہ کہاں جائے۔ ایک تو کرپشن ختم اوپر سے اتنی آمدن۔

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

کرپشن کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہیں کہ خان صاحب کا رشتہ اس سے سوکن والا ہے۔ نہ صرف خود کرپشن نہیں کی بلکہ کسی اور کی کرپشن چاہے ہو نہ ہو اس سے بھی دشمنی ہے۔ جیسا کہ ان کی جماعت فرشتوں سے بھری پڑی ہے یہ دعویٰ بالکل جائز ہے۔ ابھی ان کے دامن نچوڑیں تو عرش کے سب فرشتے وضو پر آمادہ ہو جائیں۔ بڑی زبردست ہے یہ لانڈری۔ سب ہی دھل گئے۔

ہائے صبح سے لیپ ٹاپ کھول کر بھی نہیں دیکھا۔ یہ نوکریوں کے پیچھے ذلیل ہونا تھرڈ ورلڈ ملکوں کے تھرڈ کلاس لوگوں کے مسائل ہیں۔ اب ہم بڑے لوگ بننے والے ہیں۔ امریکہ والے یہاں کے ورک ویزے  کو ترسیں گے۔ ہم کیوں روزگار کے پیچھے باولے ہوں؟ اور کچھ نہ ہوا تو ویزوں کا بزنس ہی شروع کر لیں گے۔

آپ چائے پیجئے۔ میں ذرا استعفا تیار کر کے آئی۔