اقوام متحدہ نے پاکستان کو ایچ آئی وی، ایڈز کی وجوہات کی تحقیقات اور اس پر قابو پانے کے لیے عالمی برادری کی ہر ممکنہ مدد کی یقین دہانی کروا دی ہے۔
عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) کے ماہرین کی ایک ٹیم صوبہ سندھ پہنچ چکی ہے تاکہ ایچ آئی وی، ایڈز کے بے قابو ہو چکے مرض پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔
واضح رہے کہ صوبہ سندھ میں اب تک چھ سو افراد میں ایچ آئی وی، ایڈز کی تصدیق کی جا چکی ہے جن کی اکثریت بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
باعث تشویش امر یہ ہے کہ ایڈز کا شکار ہونے والے نصف سے زیادہ بچوں کی عمر پانچ برس سے بھی کم ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نائب ترجمان فرحان حق نے کہا ہے، عالمی ادارہ صحت کی ٹیم ایچ آئی وی کے پھیلائو کی وجوہات کا تعین کرے گا جب کہ ایچ آئی وی ٹیسٹنگ، پیڈیاٹرک ایچ آئی وی ٹریٹمنٹ اور فیملی کائونسلنگ کے شعبہ جات میں بھی اپنی مہارت فراہم کرے گی۔
فرحاق حق نے نیویارک میں اقوام متحدہ ہیڈکوارٹرز میں نیوز بریفنگ کے دوران کہا، سندھ میں ایڈز کے پھیلائو کے علاوہ پاکستان بھر میں 12 سو سے زیادہ بچوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی ہے اور ان کا انٹی ریٹرو وائرل علاج کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ سندھ میں ایچ آئی وی کے پھیلائو سے متعلق خبر پہلی مرتبہ 25 اپریل کو رپورٹ کی گئی تھی جس کے تین روز بعد ایچ آئی وی سکریننگ پروگرام کا آغاز ہوا۔
لاڑکانہ میں عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کی ٹیم پاکستان میں وزارت صحت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے جن میں آغا خان یونیورسٹی، فیلڈ ایپی ڈی مولوجی اینڈ لیبارٹری ٹریننگ پروگرام، یو این ایڈز اور یونیسیف شامل ہیں۔
جنیوا ہیڈکوارٹرز سے جاری کیے گئے ایک الگ بیان میں عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ہم بچوں اور بڑوں کے لیے تشخیصی ٹیسٹ اور انٹی ریٹرو وائرل ادویات کی فراہمی کے علاوہ سرنجوں کے ایک مرتبہ استعمال کو یقینی بنا رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق، لوگوں کی اس قدر بڑی تعداد میں ایچ آئی وی انفیکشن کا موجود ہونا سنجیدہ نوعیت کا ایک چیلنج ہے جس کے لیے مقامی حکام نے 16 مئی کو انٹی ریٹرو وائرل ٹریٹمنٹ کلینک قائم کیا تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان ایچ آئی وی کی بدترین شرح والے جنوبی ایشیائی ملکوں میں سے ایک ہے اور ہر سال 20 ہزار مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، اب تک ایچ آئی وی سے متاثرہ صرف 16 فی صد مریضوں کا ہی ٹیسٹ کیا جا سکا ہے۔