گدھے بے وقوف نہیں ہوتے۔ بس اپنی عقل سے کام نہیں لیتے۔ گدھے معصوم ہوتے ہیں۔ ہانکے جانے پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ ہانکنے والا بے شک پیچھے نہ ہو مگر گدھے یہ سمجھتے ہیں کہ ضرور کوئی ڈنڈا لیے پیچھے موجود ہے۔ بصورت دیگر چلنے اور آگے بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ گدھوں کی دانش میں جب تک کوئی ہانکنے والا نہ ہو تو چلا کیسے جا سکتا ہے۔ مطلب کوئی ڈنڈے والا تو ضرور ہونا چاہیے۔
گدھے بہت شریف جانور ہوتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود انہیں شرافت بالکل بھی پسند نہیں ہوتی۔ ان کے ساتھ شرافت سے پیش آیا جائے تو حیران ہوتے ہیں۔ جتنا مرضی بوجھ لاد دیا جائے احتجاج نہیں کرتے ہیں۔ احتجاج کرتے ہیں تو اپنے لئے نہیں کرتے ہیں۔ پچھلے سال قصائیوں نے بے رحمی سے گدھوں کو کاٹا ہے۔ احتجاج نہیں کیا۔ آج بھی سفاکیت اور بے رحمی کا شکار ہیں۔ مگر مجال ہے کہ کسی سختی پر ڈینچوں ڈینچوں بھی کیا ہو۔
ظلم و بربریت سہنا جیسے ان کی عادت سی بن گئی ہے۔ بردباری میں ایکتا ہیں۔ بھاری بوجھ کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ چلتے بھی ناک کی سیدھ میں ہیں۔ مالک کا بہت احترام کرتے ہیں۔ بہت فرمانبردار ہوتے ہیں۔ مالک جس راہ پر ڈالتا ہے اسی راہ پر کاربند رہتے ہیں۔ اِدھر اُدھر نہیں جاتے۔ جو کہہ دیا اس پرقائم رہتے ہیں۔ کھانے پینے میں قناعت پسند ہیں۔ روکھی سوکھی کھا کر پیٹ بھر لیتے ہیں۔ ڈینچوں ڈینچوں زیادہ کرتے ہیں۔
یہ تمام گدھوں کا طرہ امتیاز ہے۔ شاید کسی بات پر خوشی یا فخر کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں یا اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوں گے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب کوئی گدھا ڈینچوں ڈینچوں کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ شیطان قریب ہے۔ یعنی گدھا شیطان کی آمد کا اعلان کرتا ہے۔
پاکستانی گدھے اپنی انفرادیت میں ثانی نہیں رکھتے۔ خاص کر میدانی علاقے کے گدھے سست و کاہل ہونے کے ساتھ مار پیٹ، ظلم و بربریت کے زیادہ خوگر ہیں۔ اس قدر اذیت پسند ہیں کہ اگر ان کو آزادی کی نعمت سے نواز دیا جائے تو کوئی ایسی حرکت کرتے ہیں کہ پھر کسی ظلم کی چکی میں پھنس جاتے ہیں۔ شاید اس لئے کہتے ہیں کہ گدھوں کے کون سے سینگ ہوتے ہیں۔
سینگ تو گھوڑوں کے بھی نہیں ہوتے ہیں مگر کوئی گھوڑوں کو بے وقوف نہیں کہتا۔ گھوڑوں کے بارے میں اچھی رائے اس لئے بھی ہے کہ گھوڑے تربیت حاصل کر لیتے ہیں۔ ظلم و بربریت بھی کم ہی برداشت کرتے ہیں۔ قد کاٹھ میں گدھے سے بڑے بھی ہوتے ہیں۔ عقل مند اور دانا ہوتے ہیں۔ دانائی اور عقل کی بات ہو تو اکثر کہا جاتا ہے کہ گدھے اور گھوڑے فرق کیا کریں۔
2018 گو کہ گدھوں کا سال تھا۔ مقبولیت بام عروج پر تھی۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ شک ہونے لگا تھا کہ کسی جانب سے گدھے کے حلال ہونے کا فتویٰ بھی جاری ہو سکتا ہے۔ ہلکی ہلکی آوازیں اٹھنا بھی شروع ہو گئی تھیں کہ گدھے سے کما کر کھانا اگر حلال ہے تو گوشت کیونکر حرام ہو سکتا ہے۔ اسی دوران گدھوں کی شان میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ایک بڑے بجٹ میں ڈونکی کنگ کے نام سے فلم بھی بن گئی تھی۔ جس کو خاصی پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔
بانو قدسیہ کے ناول راجہ گدھ میں گدھوں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ جس کی کمی فلم ڈونکی کنگ میں پوری کر دی گئی۔ مگر رواں سال میں بھی گدھوں کی مقبولیت کا گراف کم نہیں دیکھا گیا۔ پذیرائی میں کچھ کمی ضرور آئی ہے لیکن خمار ابھی تک موجود ہے۔ ملکی حالات کچھ ایسے بنتے گئے ہیں کہ نظریہ ضرورت کے تحت گدھوں کی افادیت میں دن بدن اضافہ ہی نظر آ رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ماضی لوٹ کر آنے کو ہے۔