الیکشن پہلے عمران خان نے رکوائے، پھر شہباز شریف نے

الیکشن پہلے عمران خان نے رکوائے، پھر شہباز شریف نے
شاہد میتلا کے جنرل باجوہ کے حوالے سے لکھے گئے مضمون کا دوسرا حصہ پاکستان 24 پر شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پیدا ہونے والے حالات، عمران خان کے لانگ مارچ، شاہ محمود قریشی کے کردار، پنجاب میں 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات اور شہباز شریف کی جانب سے حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ نامزد کرنے کے حوالے سے چشم کشا انکشافات کیے ہیں۔ ان انکشافات میں سے 6 انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف جلد انتخابات پر مان گئے، عمران خان نے رخنہ ڈال دیا

جب 10 اپریل کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو جنرل باجوہ شہباز شریف سے ملنے ان کے پاس گئے۔ ان سے پوچھا کہ آپ کا حکومت کرنے کا کیا پلان ہے تو شہباز شریف نے کہا کہ دو تین قوانین بنا کر چار سے چھ ہفتوں میں انتخابات کا اعلان کر دیں گے۔ جنرل صاحب بھی یہی چاہتے تھے تاکہ اگلی حکومت فریش مینڈیٹ کے ساتھ آ کر فیصلے کرے۔ لیکن آئی ایس آئی کے لوگوں کی بات ہوئی تو مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری دونوں چاہتے تھے کہ حکومت ڈیڑھ سال پورا کرے۔ 10 اپریل کے بعد جنرل فیض نے انہیں مسلسل دو چیزیں کہنا شروع کر دیں کہ آپ الیکشن کروا کر جائیں اور دوسری یہ کہ عمران خان آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔

شہباز شریف نے 20 مئی کو استعفا دینا تھا۔ ابھی ملک احمد خان بیٹھے تھے تو ڈی جی آئی ایس آئی بھی پہنچ گئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کل شہباز شریف استعفا دیتے ہیں تو 25 مئی کو قطر میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کون کرے گا۔ حکومت سے درخواست کریں کہ شہباز شریف 10 روز بعد مستعفی ہوں تاکہ آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی ہو جائیں اور ہمیں 10 دن نگران سیٹ اپ بنانے کے لئے بھی مل جائیں۔ جنرل باجوہ نے ڈی جی آئی ایس آئی کو کہا کہ نواز شریف سے درخواست کریں کہ وہ 10 دن ہمیں دے دیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے نواز شریف سے بات کی اور ان کو 10 دن کے لئے منا لیا۔

بار بار منع کرنے کے باوجود عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا

22 مئی کو عمران خان نے پریس کانفرنس رکھ لی۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے پھر شاہ محمود، اسد عمر اور پرویز خٹک سے بات کی کہ آپ صرف 10 دن انتظار کر لیں۔ انہوں نے پھر یہی کہا کہ عمران خان نہیں مان رہے۔ شام کو عمران خان کی پریس کانفرنس تھی۔ شاہ محمود قریشی ساتھ بیٹھے تھے، ان کو پیغام بھجوایاگیا کہ آپ عمران خان کو لانگ مارچ کا اعلان کرنے سے روکیں۔ شاہ محمود قریشی نے عمران خان کو بتایا کہ وہ بات کرنا چاہ رہے ہیں لیکن عمران خان نے بات کرنے سے انکار کر دیا جس کے مناظر ٹی وی سکرین پر بھی دیکھے گئے۔ یہ لانگ مارچ رکوانے کی آخری کوشش تھی۔ عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔

اسی روز لیگی قیادت جنرل باجوہ کے پاس آئی تو انہوں نے کہا کہ اب ہم عمران خان کا بھرپور مقابلہ کریں گے۔ جنرل باجوہ نے پھر بھی اگلے دن شاہ محمود قریشی سے بات کی کہ آپ حکومت کے ساتھ بیٹھیں۔

لانگ مارچ روکنے کا سارا انتظام رانا ثناء اللہ کا تھا۔فوج مکمل طور پر نیوٹرل تھی۔ اس نے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی تھی۔ رانا ثناء اللہ لانگ مارچ روکنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

فروری 2021 کے بعد فوج نے کسی الیکشن میں گڑبڑ نہیں کی

17 جولائی کے پنجاب ضمنی انتخابات کے حوالے سے کچھ ایسے دعوے سامنے آئے ہیں کہ یہ دھاندلی زدہ تھے لیکن فوج نے ان میں بالکل کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ فروری 2021 کے بعد کسی ایک الیکشن میں بھی معمولی گڑبڑ نہیں کی گئی۔ آج کل ویسے بھی الیکشن کے دن گڑبڑ نہیں ہوتی، الیکشن سے پہلے مینجمنٹ ہوتی ہے۔ عمران خان مقبولیت کی وجہ سے الیکشن جیتے۔ ن لیگ کی ہارنے کی سب سے بڑی وجہ پی ٹی آئی کے منحرف لوگوں کو ٹکٹیں دینا تھی۔

آرٹیکل 63A والا فیصلہ غلط تھا اور جج اسے ریورس کرنا چاہتے ہیں

سپریم کورٹ میں 63A والا فیصلہ بھی جنرل باجوہ نے نہیں کروایا تھا۔ عمر عطا بندیال پر جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب غالب آ گئے۔ یہ فیصلہ ان دونوں نے کروایا۔ جسٹس منیب نے فیصلہ لکھا۔ یہ فیصلہ غلط ہے، خلاف آئین ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی وجہ سے ملک میں عدم استحکام آیا، خاص طور پر پنجاب میں۔ ان ججوں کو بھی پتہ ہے کہ یہ فیصلہ غلط ہے، جج یہ فیصلہ ریورس بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن ان ججوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ اس کو ریورس کیسے کریں۔

سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے حامی جج بھی ہیں اور سپریم کورٹ کے ججوں کے خاندان بھی تحریک انصاف کے حامی ہیں اور ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ دو ججز جو آج کل بہت خبروں میں ہیں، پی ٹی آئی کے کٹر حامی ہیں۔ ججوں کی بیگمات اور ان کے خاندان کے دیگر افراد تحریک انصاف کو پسند کرتے ہیں۔ یہ بھی ججوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جج، بہت ڈر ڈر کرفیصلے کرتے ہیں ۔ ٹک ٹاک پہ بے عزتی وائرل ہو تو دباؤ بڑھ جاتا ہے۔

جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے عمران خان کو بنی گالہ کیس میں نااہلی سے بچایا

جنرل باجوہ کے بارے میں حال ہی میں دعویٰ سامنے آیا کہ عمران خان کو بنی گالہ کیس میں نااہلی سے انہوں نے بچایا تھا۔ جنرل فیض نے انہیں بتایا تھا کہ عمران خان کے کاغذات مکمل نہیں ہیں، وہ نااہل ہو جائیں گے تو کیا کِیا جائے؟ جسٹس ثاقب نثار کہتے تھے کہ اگر عمران خان کو بھی نااہل کر دیا تو باقی کون بچے گا؟ عمران خان کی 40 سال پرانی رسیدیں دستیاب نہیں تھیں،بینک بند ہو گئے تھے۔ عمران خان نااہلی سے بچ گئے۔اس کے بدلے جہانگیر ترین کو نااہل کر دیا گیا۔

جنرل باجوہ اور عمران خان کی ملاقات میں کیا کچھ طے ہوا؟

جنرل فیض اپنے مشن پر تھے۔ یہ جنرل باجوہ کے پاس گئے اور کہا کہ عمران خان سے ایک دفعہ ملیں۔ انہوں نے بات مان لی۔ ایوان صدر میں ملنے کا مشورہ جنرل فیض کا تھا۔ صدر عارف علوی بھی انہیں بار بار عمران خان سے ملنے کا کہہ رہے تھے۔ یہ ایوان صدر گئے تو حیران کن طور پر عمران خان ان سے بہت اچھے طریقے سے ملے جیسے کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ جنرل باجوہ بھی ان کی منافقت پر حیران تھے کیونکہ وہ عوام کے سامنے ان پر بھرپور تنقید کرتے تھے۔ انہوں نے کہا آپ میر جعفر اور میر صادق کہتے ہیں۔ عمران خان صاف مُکر گئے، بولے وہ تو میں نواز شریف اور شہباز شریف کو کہتا ہوں۔ پھر عمران خان نے کہا کہ آپ ان کی حکومت گرا دیں، ان کو گھر بھیج دیں اور الیکشن کروا دیں۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ آپ تو اسمبلی میں ہی نہیں ہیں۔ حکومت دو سیٹوں پر کھڑی ہے۔ آپ اسمبلی جائیں پھر آپ کو فائدہ ہو گا۔ تو عمران خان نے کہا، نہیں آپ حکومت گرا دیں اور الیکشن کروائیں۔ عارف علوی اس وقت تک کمرے سے باہر بیٹھے تھے، انہیں اندر بلا لیا گیا۔ جنرل باجوہ نے عارف علوی سے کہا کہ عمران خان کو سمجھائیں کہ کیسے حکومت گرا سکتے ہیں اور حکومت ختم ہونے کا انکو کوئی فائدہ نہیں ہو گا جب تک وہ اسمبلی میں نہیں جاتے۔ پھر عارف علوی نے بھی ان کو سمجھایا۔

اس کے بعد عمران خان سے دوسری ملاقات ہوئی تو جنرل باجوہ بڑے غصے میں تھے کیونکہ وہ مسلسل ان کے بارے میں جھوٹ بول رہے تھے۔ جنرل باجوہ نے کہاآپ اپنی زبان پر کنٹرول کریں اور اپنے جھوٹوں کو لگام دیں ورنہ جواب بھی دیا جا سکتا ہے، آپ جھوٹ بولنا بند کریں۔ عمران خان نے کہا آپ کیا کریں گے؟ جنرل باجوہ نے کہا آپ پلے بوائے نہیں رہے؟ آپ کی ویڈیوز بھی موجود ہیں، اگر زبان بند نہ کی تو گلہ نہ کیجیے گا۔ اس طرح یہ ملاقات بھی تلخی پر ختم ہو گئی۔




اس مضمون کا پہلا حصہ یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔

مصنف صحافی اور اینکر پرسن ہیں۔