موجودہ پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی متنازع ہورہی ہے: چیف جسٹس

موجودہ پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی متنازع ہورہی ہے: چیف جسٹس
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ موجودہ حکومت کے قیام کو 8 ماہ ہوچکے ہیں۔ موجودہ پارلیمنٹ کو دانستہ طور پر نامکمل رکھا گیا ہے جب کہ پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی بھی متنازع ہورہی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ  نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عام انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں تمام مسائل کا حل عوام کے فیصلے سے ہی ممکن ہے۔موجودہ حکومت کے قیام کو 8 ماہ ہوچکے ہیں۔الیکشن کمیشن نے سپیکر رولنگ کیس میں کہا تھا کہ نومبر 2022 میں عام انتخابات کرانے کے لئے تیار ہوں گے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ موجودہ پارلیمنٹ کو دانستہ طور پر نامکمل رکھا گیا ہے۔موجودہ پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی بھی متنازع ہورہی ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے نیب ترامیم پر عمران خان کا حق دعویٰ نہ ہونے پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت آرٹیکل 184 تھری پر محتاط رہے۔ آرٹیکل 184 تھری کے تحت کسی بھی درخواست پر قانون سازی کالعدم قراردی گئی تو معیار گر جائے گا۔ آرٹیکل 184 تھری کا اختیارعوامی معاملات میں ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس کے حقائق مختلف ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ نے نیب ترامیم چیلنج کی ہیں۔ ملک میں شدید سیاسی تناؤ اور بحران ہے۔ پی ٹی آئی نے پہلے پارلیمنٹ چھوڑنے کی حکمتِ عملی اپنائی۔ تحریکِ انصاف نے پتہ نہیں کیوں پھر پارلیمنٹ میں واپس آنے کا بھی فیصلہ کر لیا۔ درخواست گزار عمران خان کوئی عام شہری نہیں۔ حکومت چھوڑنے کے بعد بھی عمران خان کو بڑی تعداد میں عوام کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت بھی قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔ عدالت نے کوئی ازخود نوٹس نہیں لیا بلکہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست آئی ہے۔

سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کا تذکرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت اس سے پہلے بھی ایک بار اپنے فیصلے پر افسوس کا اظہار کر چکی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی وزیرِ اعظم آئے تھے جو بہت دیانت دار سمجھے جاتے تھے۔ایک دیانت دار وزیرِ اعظم کی حکومت 58 ٹو بی کے تحت ختم کی گئی تھی۔ آرٹیکل 58 ٹو بی ڈریکونین قانون تھا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ عدالت نے 1993ء میں قرار دیا کہ حکومت غلط طریقے سے گئی لیکن اب انتخابات ہی کرائے جائیں۔ اب عمران خان اسمبلی میں نہیں اور نیب ترامیم جیسی قانون سازی متنازع ہو رہی ہے۔ اس کیس میں عمران خان کا حقِ دعویٰ ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ نہیں بنتا۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ سیاسی بازی ہارنے کے بعد کوئی شخص پارلیمان سے نکل کرعدالت آیا ہو۔ اس طرح سیاست کو عدلیہ میں اور عدلیہ کو سیاست میں دھکیلا گیا ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اقلیت میں موجود شخص کے حقوق متاثرہوں گے تو وہ عدالت کےعلاوہ کہاں جائے؟ جو بھی ضروری ہے اس کا فیصلہ عوام کو کرنے دیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ انتخابات سے قبل قانون میں وضاحت ضروری ہے۔ پارلیمنٹ چھوڑنے کے بعد ملک میں انتخابات کے لیے ہر کسی کو ایک سے زائد نشست پر انتخابات لڑنے کا حق حاصل ہے۔ بھارت میں ایک شخص کو ایک ہی نشست پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہے۔ ایک سے زیادہ نشست سے انتخابات لڑنے سے ہار یا جیت کی صورت میں عوامی پیسے کا ضیاع ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ذولفقار بھٹو نے ایک سے زائد سیٹ پر انتخابات لڑے تھے۔ بھٹو نے بلا مقابلہ نشست جیتی تو باقی انتخابات معمول کے مطابق ہوئے تھے۔

جس پر وکیل وفاق حکومت نے کہا کہ یہ 1970 سے پہلے کا معاملہ تھا۔عوام نے بھٹو کے بلا مقابلہ جیتنے کی بھاری قیمت ضیا کے 11 سالوں کی صورت میں اتاری تھی، ایک عدالت جمہوریت نہیں بچا سکتی۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ 40 سال پہلے ایک بین القوامی اخبار میں آرٹیکل لکھا گیا۔ آرٹیکل کے مطابق لوگ سیاستدانوں کو اپنی پہچان چاہتے ہیں نہ ہی ججز سے حکومت کرانا۔ عدالت حکومت نہ کرے۔

جس پرجسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کوئی حکومت کرنا نہیں چاہتی۔ عدالت ازخود نوٹس کے اختیار میں محتاط رہی ہے۔ سیاسی خلا عوام کے لئے کٹھن ہوتا ہے۔ جب سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے تو عدالت کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ عوام کرپشن سے پاک حکومت چاہتی ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ تحریک انصاف کے استعفے منظور ہوئے تو عدالتوں میں چلی گئی۔ اب تمام بحث پارلیمان کے بجائے عدالتوں میں ہو رہی ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو طلب کرنے کا عندیہ دے دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ عمران خان کو بلا کر پوچھا جائے اسمبلی نہیں جانا تو الیکشن کیوں لڑ رہے ہیں۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن  نے کہا کہ کیا عدالت اسمبلی بائیکاٹ پر کسی کا حق دعوی مسترد کر سکتی ہے؟ نیب ترامیم صرف اپنے فائدے کے لئے کی گئیں۔ نیب ترامیم چند افراد کے مفادات کے لئے کی گئیں ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا عدالت اسمبلی بائیکاٹ پر کسی کا حقِ دعویٰ مسترد کر سکتی ہے؟ نیب ترامیم صرف اپنے مفاد کے لئے کی گئیں۔ نیب ترامیم چند افراد کے مفادات کے لئے کی گئیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عمران خان اور ان کی کابینہ ارکان کے نیب کے حوالے سے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ عمران خان نے ہنگامی بنیادوں آرڈیننس لاکر نیب قانون میں ترمیم کی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرڈیننس عارضی قانون سازی ہوتی ہے حالیہ ترامیم مستقل نوعیت کی ہیں۔ آرڈیننس لانے کی وجہ اسمبلی میں اکثریت نہ ہونا بھی ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان میں ہونے والی بحث میں حصہ نہ لینے کی وضاحت کا بھی انتظار ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ عمران خان کے آرڈیننس اور حالیہ ترامیم میں کیا فرق ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آرڈیننس میں ترمیم کرکے نیب قانون لایا گیا۔ نیب قانون پر پارلیمان میں بحث عمران خان کے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوئی، سینیٹ میں تحریک انصاف موجود تھی، بحث بھی ہوئی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک کے لئے ملتوی کر دی۔