'ایل این جی نہیں ملے گی'، روس کا پاکستان کو جواب

'ایل این جی نہیں ملے گی'، روس کا پاکستان کو جواب
گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کو موسم سرما میں گیس بحران کا سامنا ہے اور گیس کی لوڈشیڈنگ اور کم پریشر نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔ اس وقت پاکستان ملک میں درآمدی ایل این جی گیس کی قلت کو پورا کرنے کے لیے روس سمیت عالمی منڈی کی جانب 'عاجزانہ نظروں' سے دیکھ رہا ہے تاہم اس مشکل سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔

پاکستان کے معروف تجارتی اخبار بزنس ریکارڈر پر منگل کے روز شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق روس نے پاکستان کو  مائع قدرتی گیس   (ایل این جی) دینے سے صاف انکار کر دیا ہےتاہم کوئلہ فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی گئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزارت توانائی سے باوثوق ذرائع  نے اس بات کا انکشاف کیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے وزیر مملکت برائے پیٹرولیم نے اکتوبر میں روسی وزیر برائے توانائی کو خط لکھا تھا اور سردیوں کے مہینوں میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روس سے ایل این جی کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ یہ خط روس میں پاکستان کے سفیر شفقت علی خان نے روس کے وزیر توانائی سے حالیہ ملاقات کے دوران ان کے حوالے کیا۔

اس خط کے جواب میں روسی فریق نے کہا کہ ایل این جی کے معاہدے طویل مدتی بنیادوں پر کیے گئے تھے اور انہیں مختصر نوٹس پر ترتیب دینا مشکل تھا تاہم وہ پاکستان کی درخواست پر غور کریں گے۔

ذرائع کے مطابق وزیر توانائی کی جانب سے لکھے جانے والے خط  کے جواب میں روس کی جانب سے کوئلے کی فراہمی کی پیشکش کی گئی۔  روسی وزیربرائے توانائی نے 15 ستمبر کو صدر ولادیمیر پیوٹن اور پاکستانی  وزیراعظم شہباز شریف کے مابین سمرقند میں ہونے والی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر پھر بھی پاکستان کوئلے کی خریداری کے لئے درخواست کرتا ہے تو  ہم فراہم کرنے کے لئے تیار ہیں۔

سال 2020 میں روس کے پاس قدرتی گیس کے 37.4 ٹریلین کیوبک میٹر کے ثابت شدہ ذخائر تھے جو کہ ایک دہائی قبل 34.1 کیوبک میٹر ریکارڈ کیے گئے تھے۔

وزارت قدرتی وسائل کے مطابق، روس کے کوئلے کے ذخائر 22 کوئلے کے بیسن اور 146 علیحدہ ذخائر کے اندر موجود ہیں۔ کل ذخائر میں سے نصف سے زیادہ بھورا کوئلہ ہے جو کہ 146 بلین ٹن ہے اس کے علاوہ  120.4 بلین ٹن بٹومینس کوئلہ ہے جس میں سے 50.1 بلین ٹن امور خانہ داری کے لیے موزوں ہے۔ ملک کی صنعت اور توانائی کے شعبوں کے لیے کوئلے کی آمد ملک کو معاشی مسائل سے نمٹنے میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسلام آباد میں موجود روسی سفارتخانے کی جانب سے 28 اکتوبر کو خط لکھا گیا جس میں یہ سفارش کی گئی کہ آئندہ سال 18 سے 20 جنوری کے دوران ہونے والے پاک-روس بین الحکومتی کمیشن (آئی جی سی)  کے  8ویں سیشن میں تجارت، معیشت سائنسی اور تکنیکی معاونت کے علاوہ توانائی کے شعبے سے متعلق مشکلات پر بھی بات ہونی چاہیے۔

آئی جی سی کے 8ویں اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان کی جانب سے سردار ایاز صادق اور روس کی جانب سے وزیر توانائی نکولے شولگینوف کریں گے۔اس سلسلے میں، وزارت اقتصادی امور کے ایڈیشنل سیکرٹری-1 کی صدارت میں آئی جی سی کے ساتویں اجلاس کے دوران کیے گئے فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے سے بین وزارتی اجلاس (آئی ایم ایم) کل (16 نومبر) کو منعقد ہوگا۔

پاکستان کی جانب سے روس کے ساتھ تیل کی درآمد پر ڈیل کی کوششیں جاری ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین بات چیت کا تاحال کوئی واضح نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ پاکستان  اپنے ٹریڈنگ کارپوریشن (ٹی سی پی) کے ذریعے روس سے حکومتی بنیادوں (جی ٹو جی) پر گندم درآمد کر رہا ہے۔

آئی سی جی کی پچھلی میٹنگ میں  روسی کمپنی ڈیجیٹل انڈسٹریل پلیٹ فارم نے پاکستانی تیل اور گیس کمپنیوں کے ساتھ نتیجہ خیز تعاون بڑھانے میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔اس وقت دونوں فریقوں نے حبیب رفیق انجینئرنگ (پرائیویٹ) لمیٹڈ اور اس کے ذیلی اداروں کو تعاون فراہم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔روسی کمپنی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ روسی اداروں کے ساتھ مشترکہ طور پر پاکستانی مارکیٹ میں تیل اور گیس کے شعبے کے لیے صنعتی ڈیجیٹل حل کی ترقی، مارکیٹنگ اور نفاذ کے مواقع تلاش کرنے کے لیے تعاون کرنا چاہتے ہیں۔

کمیشن نے نوٹ کیا تھا کہ پی ایس او وقتاً فوقتاً ایل این جی کی درآمد کے لیے ٹینڈرز بھی جاری کرتا ہے اور مستقبل کے ٹینڈرز میں روسی کمپنیوں کی شرکت کا منتظر ہے۔

کمیشن نے روسی کمپنیوں کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات تلاش کرنے کے لیے پاکستانی فریق کی مندرجہ ذیل تجاویز کو نوٹ کیا گیا؛

1- ریفائنریز کا قیام

2-  موجودہ ریفائنریز کی اپ گریڈیشن

3- ورچوئل ایل این جی پائپ لائنز

4-  ایل این جی کا ساحلی ذخیرہ

5- تیل کے اسٹرٹیجک ذخائر

6- گیس کے اسٹرٹیجک ذخائر (اس نکتے کے تحت پاکستان کی طرف سے "پاکستان اسٹریم" منصوبے کے تسلسل میں زیر زمین گیس ذخیرہ کرنے کے لیے روسی طرف سے تجویز پر غور کیا جائے گا)۔