قرض اتارو ملک سنوارو سے کرونا ریلیف فنڈ تک: پاکستان میں قائم ہونے والے امدادی فنڈز کی تاریخ

قرض اتارو ملک سنوارو سے کرونا ریلیف فنڈ تک: پاکستان میں قائم ہونے والے امدادی فنڈز کی تاریخ
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عالمی وبا کووڈ 19 کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کرونا نامی وائرس سے پھیلنے والی یہ وبا اتنی تیزی سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے کہ بہترین صحت کی سہولیات رکھنے والے ممالک بھی اسے روکنے میں مکمل بے بس نظر آئے ہیں۔ پاکستان بھی اپنے محدود وسائل اور صحت کے کمزور نظام کے ساتھ اس مہلک مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے کوشاں ہیں۔

اس صورتحال میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لئے 12 سو ارب روپے کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیراعظم نے ایک فنڈ بھی قائم کیا ہے اور ملک کے صاحب استطاعت اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس فنڈ میں تعاون کریں تاکہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے حکومتی وسائل میں اضافہ ہو۔ پیر کی رات قوم سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے ’وزیر اعظم امدادی فنڈ برائے COVID-19' قائم کرنے کا اعلان کیا۔

کیا پاکستان کی تاریخ میں کسی بحرانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے یہ پہلا فنڈ قائم کیا گیا ہے؟

اسی طرح کے ایک فنڈ کا آغاز 23 سال قبل ہوا تھا۔

قرض اتارو ملک سنوارو سکیم

23 فروری 1997 کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے ملک میں 1500 بلین روپے کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے ’قرض اتارو ملک سنوارو سکیم‘ کا آغاز کیا تھا۔ اس فنڈ کے تحت حکومت نے عوام سے جو رقم اکٹھا کی وہ 2 اعشاریہ 805 ارب روپے تھی۔ فنانس ڈویژن کی دستاویزات کے مطابق، اس سکیم سے حاصل شدہ رقم سے 1 اعشاریہ 105 بلین روپے استعمال ہی نہیں ہوئے۔ یہ رقم 27 مارچ 1999 کو فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ اور نان فوڈ اکاؤنٹ میں منتقل کر دی گئی۔

2005 زلزلہ فنڈ

8 اکتوبر 2005 کو ملک کے شمالی علاقوں میں آنے والے خطرناک زلزلے میں 73 ہزار کے قریب لقمہ اجل بن گئے اور زلزلہ زدہ علاقوں میں انفراسٹرکچر بری طرح تباہ ہو گیا۔ ان علاقوں میں تمام سہولیات کی بحالی کے لیے بے تحاشہ وسائل کی ضرورت تھی۔ اس موقع پر حکومت نے باقاعدہ طور پر کوئی فنڈ تو قائم نہیں کیا لیکن پھر بھی متاثرین کے لیے مختلف ذرائع سے ایک خطیر رقم جمع ہوئی جس میں پاکستان عوام سمیت بین الاقوامی اداروں اور دوسری اقوام نے بھی حصہ ڈالا۔

صدارتی ریلیف فنڈ برائے سیلاب متاثرین

جولائی 2007 میں، اس وقت کے صدر، جنرل پرویز مشرف نے ’صدارتی ریلیف فنڈ برائے سیلاب متاثرین‘ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اس فنڈ کو اس سال سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ 17 اگست 2007 کو ہی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا قیام عمل میں آیا، جو ایک خود مختار اور آئینی طور پر قائم ہونے والا وفاقی ادارہ ہے۔ اس کے ذمے ملک میں آنے والی آفات اور ان کے انتظامات سے متعلق تمام معاملات کو دیکھنا ہے۔

سیلاب 2010 امدادی فنڈ

2007 کی طرح 2010 میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے بھی ایک امدادی فنڈ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس سیلاب نے پاکستان کی کل اراضی کے تقریباً پانچویں حصے کو متاثر کیا تھا جس سے قریب 2 کروڑ افراد براہ راست متاثر ہوئے تھے اور 2 ہزار کے قریب اموات ہوئی تھیں۔

وزیراعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان فنڈ برائے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم

10 جولائی 2018 کو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ملک میں بڑھتی ہوئی پانی کی قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیم فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاکہ ملک میں پانی ذخیرہ کیا جا سکے۔ ثاقب نثار نے اس مقصد کے لئے ’سپریم کورٹ آف پاکستان دیامر بھاشا اور مہمند ڈیمز فنڈ‘ قائم کیا۔

بعدازاں، وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اس مقصد کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا اعلان کیا۔ اسی مناسبت سے اس فنڈ کا نام تبدیل کر کے ’وزیر اعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان فنڈ برائے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم‘ رکھا گیا۔

9 ستمبر 2018 کو ایک واپڈا اہلکار نے انکشاف کیا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے کم از کم 12 ارب امریکی ڈالر درکار ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈ کو اب تک 11.75 ارب روپے سے زائد کی رقم ملی ہے۔ اس فنڈ میں ملک بھر سے شراکت 9.6 ارب روپے سے زائد رہی جب کہ باقی 1.7 ارب روپے سے زیادہ رقم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے دی۔

یہ فنڈ کہاں استعمال ہوا؟ ڈیم کب بنے گا؟ یہ تاحال کسی کو نہیں پتہ۔

واضح رہے کہ وزیراعظم پاکستان نے اب کرونا وائرس سے لڑنے کے لئے فنڈ قائم کیا ہے جس میں ملک اور بیرون ملک مقیم عوام سے بھرپور تعاون کی اپیل کی گئی ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=fKj2La0XdGk