متحدہ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں باچا خان کا نام انگریز استعمار کےخلاف مزاحمت اور پختون قومیت کے لیئے جدوجہد کرنے کے حوالے سے نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ تاہم خان عبدالغفار خان، عرف باچا خان، کی 5 مارچ 1948 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں حلف وفاداری اٹھانے کے بعد پہلی تقریر کا متن بتاتا ہے کہ تقسیم کے خلاف رہنے والے باچا خان نے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔
میری رائے اور میرا سیاسی عقیدہ یہ تھا کہ ہندوستان کی تقسیم نہ ہو کیونکہ آج تک ہم نے ہندوستان میں یہ کھیل دیکھا ہے۔ ہزاروں مرد جوان بوڑھے بچے اور عورتیں قتل کیئے جا چکے ہیں اور تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میری دیانتدرانہ اور مخلصانہ رائے یہی تھی کہ ہندوستان تقسیم نہ ہو لیکن اب تو یہ ہو چکا اب تو جھگڑا ختم ہے۔
پاکستان کے اندر ایک خود مختار پختونستان قائم ہونا چاہیے۔ ہمارے پٹھانستان کا کیا مطلب ہے میں آپ کو ابھی بتاتا ہوں۔ اس صوبے کے لوگ سندھی کہلاتے ہیں۔ اور انکے ملک کا نام سندھ ہے۔ اسی طرح بنگالی ہیں اور اسی طرح شمال مغربی سرحدی صوبہ ہے۔ ہم سب ایک ہیں اور ہماری زمین پاکستان پاکستان کے اندر ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ نام لینے سے معلوم پڑ جائے کہ یہ کس کا ملک ہے۔ یہ پختونستان کی سر زمین ہے۔ کیا یہ شریعت اسلام کے تحت گناہ ہے۔ پٹھان ایک فرقے کا نام ہے۔ اور ہم اپنے ملک کا نام پختونستان رکھیں گے۔
ہندوستان کے لوگ ہمیں پٹھان اور ایرانی افغان کہتے ہیں۔ ہمارا اصلی نام پختون ہے۔ ہم پختونستان چاہتے ہیں۔ اور ہم ڈیورنڈ لائن کی اس جانب رہنے والے سارے پٹھانوں کو اس میں متحد کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اس سلسلے میں ہماری امداد کریں۔ آپ اگر کہیں گے کہ اس طرح پاکستان کمزور ہوجائے گا تو میں کہوں گا ایک علیحدہ اکائی کے وجود میں آنے سے کمزور نہیں مضبوط ہوگا.