افغاانستان میں بدلتی ہوئی صورت حال پر اگرچہ پوری دنیا کی نظریں ہیں مگر علاقائی اور پڑوسی ممالک کی ذمہ داریاں بھی دگنی ہو جاتی ہیں کہ افغان وطن میں نہ ختم ہونے والی خون ریزی کو ختم کرنے میں اپنا تعمیری کردار ادا کرے اسی سلسلے میں گزشتہ روز باچاخان مرکز پشاور میں افغان جنگ اور علاقائی صورتحال کے موضوع پر ایک سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا تھا۔
چونکہ پاکستانی پشتون بلٹ کا افغان وطن کے ساتھ ایک گہرا اور تاریخی رشتہ ہے اس لئے جب کبھی افغانستان میں کوئی عمل ہوتا ہے خواہ وہ تعمیری ہو یا تخریبی اس کے ڈائریکٹ اثرات یہاں کے لوگوں پر ہوتے ہیں۔ اس ایک روزہ سٹڈی سرکل میں کثیر تعداد میں طلباء ، سیاسی اورانسانی حقوق کے کارکنان نے شرکت کی۔ مقررین نے پاکستانی پالیسی میکرز پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر کابل میں امن ، تجارت، ترقی، تعلیم اور صحت کا بول بالا ہوتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ اسلام آباد کو ہوگا اور دنیا میں پاکستان کا سافٹ اور امن پسند ملک کے طور پر سامنے آئے گا۔ پشاور یونیورسٹی کے سیاسیات کے ڈاکٹر درویش آفریدی نے اپنے لیکچر میں دوٹوک الفاظ میں کہا کہ دنیا افغانستان میں امن چاہتا ہے اور جو طاقتیں امن کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرے گی اس مہذب اور اکیسویں صدی میں ان اقوام کا اقتصادی بائیکاٹ سمیت مختلف قسم کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
درویش آفریدی نے ڈاکٹر نجیب اور صدر اشرف غنی کے ادوار کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ کمیونسٹ اور سرمایہ داروں کی جنگ میں افغان ریاست کا کوئی ساتھی نہ تھا اور سویت یونین بکھر اور اقتصادی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا اور عالمی میڈیا کا پراپیگنڈا اتنا پرزور تھا کہ پاؤ افغان قوم کی بات کوعالمی اسٹبلشمنٹ پالیسی میکرز ماننے لگی اور ایک اندھیر نگری تھی جس کے پاس زیادہ بندوق اور اس کو چلانے والے ہوتے وہی اپنے علاقے کا بدمعاش ہوتا۔ مگر اب 1990 کے حالات تو نہیں ہے سپرپاور نے افغان امن کے لئے ٹریلین ڈالرز خرچ کئے ہیں اور تباہ حال افغانستان میں کئی ادارے کھڑے کئے ہیں افغان باشندوں کا ریکارڈ بن رہا ہے نوجوان نسل اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے جنگ اور امن میں فرق اور دنیا کی حالات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں.
ایران، روس، چائنہ غرضیکہ دنیا کا کوئی بھی ملک انتہاپسند افغانستان نہیں چاہتا۔ پاکستان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں پر ایک طرف جنگ، بربادی اور خون اور دوسری طرف آبادی، تعمیر اور محبت کے نغمے ہیں۔ انھوں نے کہا ڈیورنڈ ، فوج ، ڈیمز اور اس طرح کے دوسرے شرائط رکھنا پاکستان کو زیب نہیں دیتا کیونکہ نہ پاکستان سامراج سلطنت اور نہ افغانستان کالونی ہے۔
باجوڑ سے قبائلی مشر شیخ جہانزادہ نے اس موقع پر کہا کہ دونوں برادر اسلامی ممالک افغانستان اور پاکستان کو چاہئیے کہ اس تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا ادراک کریں تاکہ چالیس سال جنگ کا خاتمہ ہو سکے کیونکہ جنگوں نے انسانیت کا جنازہ نکالا ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ یہاں سے جنگ پسندوں کی افغانستان کی طرف حرکت کو بند کرے اور افغان حکومت کو بھی چاہئے جو لوگ افغان سیلولرز سم سے یہاں بھتہ کے لئے فون کرتے ہیں ان کے خلاف آپریشن کرے اور دونوں دیسوں کا اسی میں فائدہ ہے کہ جنگی اقتصاد کے ہر دروازے اور کھڑکی کو ہمیشہ کے لئے بند کرے تاکہ آنے والی نسلیں ترقی کی دوڑ میں شامل ہو سکے ۔
عوامی نیشنل پارٹی کے کلچر سیکرٹری اور مصنف خادم حسین نے کہا کہ عجیب صورتحال ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ افغانستان ایک بار پھر جنگ کے دھانے پر کھڑا ہے اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے کہ افغان نیشنل آرمی سمیت پوری قوم وطن کی دفاع کے لئے ایک ہی صف میں ہوں گے اس کے علاوہ ڈاکٹر نجیب کے دور میں افغانستان میں موثر کاروائی کے لئے ائیر فورس نہیں تھی مگر صورتحال اب بالکل مختلف ہے۔ ان تمام فیصلہ کن مرحلہ میں پاکستان پر سب سے زیادہ ذمہ داری آں پڑتی ہے کہ وہ امن کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرے اور ایک پڑوسی کے ناطے بھی کابل کا اسلام آباد پر قرض بنتا ہے کہ جنگ پسندوں کی بجائے اب امن پسندوں کے ساتھ ہاتھ ملائے اور جنگی اقتصاد کی بجائے تجارت، امن ، سیاحت وغیرہ سے اقتصاد کو پروان چڑھایا جائے۔ خادم حسین نے کہا کہ عجیب منطق ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ ملک کو چلانے کےلئے کوئی واضح آوٹ لائنز بھی نہیں ہیں اور نہ ان کومعلوم ہے کہ امیر یا صدر کو بنانے کے لئے آپ کے پاس کون سا طریقہ ہے اور اس امیر کا احتساب یا جج سمیت پولیس اور فوج وغیرہ مختلف ڈیپارٹمنٹ کے حوالے سے کیا لائحہ عمل ہے تو جواب نہیں ملتا اور دوسری طرف ایک منتخب حکومت ہے ۔
مقررین کے بعد مجمع میں بیٹھے خواتین و خضرات نے سوالات کئے اور ساتھ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اب کے بار پشتون نسل کو یہ باور اور پٹی پڑھانا ہوگی کہ افغانستان جنگ سے اپنے آپ کو باہر رکھنا ہوگا اور قوم کی پوری کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ امن اور ترقی کے لئے تمام تر توانائیاں صرف کرنی ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ پاکستانی پشتونوں کا افغان وطن کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والا رشتہ ہے تو اگر پاکستانی پالیسی میکرز یہاں کے قوم پرست سیاستدانوں کو باوقار طریقے سے لابنگ کے لئے استعمال کرے تو دونوں ممالک کے مابین اعتماد کا رشتہ ہمیشہ کے لئے بحال ہو سکتا ہے جنگوں نے نفرتیں دے ہیں ایک بار امن کو چانس دینا چاہیے ۔ پروگرام کے آخر میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری سردار حسین بابک نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی اکابرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امن کی تبلیغ کرتے رہیں گے اور چونکہ افغان وطن ہمارے بزرگوں کی دھرتی ہے اس لئے پرامن ، خود مختار اور خوشحال افغانستان کے لئے ہماری آواز اسی زور سے گونجتی رہے گی۔ انھوں نے کہا کہ وقت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھے پالیسی میکرز ہوش کے ںاخن لے کر 80 کی پالیسی کو ترک کرے اور تعمیری سوچ کے ساتھ آگے بڑھے ۔ بابک نے کہا کہ پشتون تعلیم یافتہ نوجوانوں پر اس دھرتی کا فرض بنتا ہے کہ اب سوشل میڈیا کے ذریعے یہاں کے حالات سے باخبر رکھے اور اب یہ سب کچھ بہت آسان ہو چکا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ سٹڈی سرکلز کا انعقاد بھی بہت ضروری ہوچکا ہے تاکہ ہم کسی کے پراپیگنڈہ میں پھر نہ آئے اور اپنے پشتون بہن بھائیوں کی بربادیوں میں اپنا حصہ کبھی نہیں۔
مصنف پشاور سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان سے رابطہ ٹوئٹر پر @theraufkhan کیا جا سکتا ہے۔