عدلیہ اور طاقتور اداروں کی چیرہ دستیوں کے بارے میں اتنے مضامین لکھ چکا ہوں کہ مزید لکھنے کو کچھ بچا نہیں تھا اور پھر جب معلوم ہو کہ صحرا میں خواہ کتنی ہی اذانیں دی جائیں سننے والا کوئی نہیں ہے تو پھر اس فضول مشق کا کیا فائدہ، لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے نتیجہ میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال نے ایک بار پھر اس موضوع پر لکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اس بات کا اب یقین ہو چلا ہے کہ موجودہ حالات کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہیں۔ 2013 سے ہمارے اداروں نے جو کھیل شروع کیا تھا وہ اب اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھتا محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یوں تو ہمارے طاقتور اداروں نے پہلے بھی کبھی آئین و قانون کو اہمیت دینے کا تکلف نہیں کیا تھا لیکن جسٹس ثاقب نثار کے چیف جسٹس بننے کے بعد سے تو عدلیہ نے کھل کر طاقتور اداروں کے ماتحت ادارے کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔
اس دور میں جس طرح انصاف کا قتل کیا گیا اس نے پاکستان کو ایک بنانا سٹیٹ بنا کر رکھ دیا۔ اس دوران آئین و قانون سے ماورا جو فیصلے دیئے گئے وہ ہماری جگ ہنسائی کا سبب بنے۔
پانامہ کیس ہو یا عمران خان، شیخ رشید اور جہانگیر ترین کے کیسز ہوں۔ ہر کیس پر دنیا نے ہماری عدالتوں کا مذاق اڑایا لیکن ہماری عدلیہ کو دنیا سے کیا لینا، اسے تو طاقتور اداروں کی خوشنودی حاصل رہنی چاہیے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں بھی جو تماشا لگایا گیا وہ ساری دنیا نے دیکھا۔ تین با ضمیر ججز نے اکثریتی فیصلہ سے اختلاف کیا لیکن فیصلہ بہرحال وہی ہے جو اکثریت سے ہوا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تعصب پر مبنی ریفرینس بھیجنے پر صدر پاکستان جنہوں نے یہ ریفرینس بھیجا، وزیر اعظم پاکستان جنہوں نے صدر کو ایڈوائس بھیجی، فروغ نسیم اور شہزاد اکبر جنہوں نے یہ ریفرنس تیار کیا، ان سب کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری ہونا چاہیے تھا اور قرار واقعی سزا دینی چاہیے تھی لیکن ان تمام ملزموں کو کلین چٹ دے کر سرخرو کیا گیا، جبکہ قاضی فائز عیسیٰ کی بیگم کو ایف آئی اے کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے کا پابند کیا گیا اور پھر ایف آئی اے کو ٹائم باؤنڈ کیا گیا، اور یہ حکم دیا گیا کہ رپورٹ سپریم جوڈیشیل کونسل کو بھیجی جائے۔
کیا کوئی پوچھ سکتا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی بیگم کے بیان پر سپریم جوڈیشل کونسل آئین کی کونسی شق کے تحت کارروائی کرسکتی ہے کیونکہ کہ یہ کونسل تو صرف ججز کے مس کنڈکٹ کو دیکھنے کی پابند ہے۔
کل ہی راولپنڈی کے ایک باریش ملعون شخص نے اپنی عدالت لگائی اور افواج پاکستان کے سربراہ سے مطالبہ کیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کو فوارہ چوک پر پھانسی دی جائے۔ آج جسٹس صاحب کی بیگم اس دھمکی پر تھانہ سیکریٹریٹ میں ایف آئی آر درج کرانے گئیں، لیکن ڈھ جماعت پاس 'ڈریکٹ' حوالدار نے ایف آئی آر درج نہ کی تو کوئی تعجب نہیں ہوا کیونکہ جب ہماری نام نہاد عدلیہ ہی اپنے ایک باضمیر جج کو دی گئی اس دھمکی پر سوموٹو نوٹس نہیں لیتی تو یہ اس بات کا واضع اشارہ ہے کہ یہ حکم 'کہاں' سے آیا ہے۔
یہ سارا ڈرامہ صرف جسٹس فائز عیسیٰ کو عدالت عظمیٰ سے فارغ کرنے کیلئے رچایا گیا ہے اور اگر ملکی نظام کا جائزہ لیا جائے تو اس میں جسٹس صاحب کا جرم بڑا واضح ہے۔
کیا فیض آباد دھرنے کے حقیقی کرداروں کو جسٹس صاحب نے اپنے فیصلے میں بے نقاب نہیں کیا تھا؟ کیا کوئٹہ میں وکلا پر کی گئی دہشتگردی میں انہوں نے ان کرداروں کی نشاندہی نہیں کی تھی؟ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کیا انہوں نے متعلقہ ادارے سے ان کرداروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کی ہدایت نہیں کی تھی؟ ایک بے حس، بے ضمیر اور شرم و حیا سے عاری قوم میں جب جسٹس فائز عیسیٰ جیسے کردار پیدا ہوں گے تو کیا اس کے معاشرے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے؟ جسٹس فائز عیسیٰ کو نہ صرف ان کے عہدے سے برطرف کرنا چاہیے بلکہ قرار واقعی سزا بھی دینی چاہیے تاکہ آئندہ کسی جج کا ضمیر اسے تنگ نہ کرے۔