صحافی کامران یوسف نے ٹریبیون کی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی باتیں کی جا رہی ہیں کہ اگر عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو بھی گئی تو صدر مملکت عارف علوی انھیں بطور وزیراعظم اپنا عہدہ جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر بقول عمران خان کے ان کے پاس اسٹیبلشمنٹ اپوزیشن کا پیغام لے کر آئی اور تین آپشنز دیے تو اس کا مطلب ہے کہ مقتدر حلقے یہ نہیں سمجھتے کہ عمران خان کو ہٹانے کے پیچھے کوئی بیرونی سازش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے اے آر وائی کو دیئے گئے انٹرویو میں خود ہی سازش والی تھیوری کو رد کر دیا ہے۔ جبکہ متعلقہ حکام اس بات پر بضد اور قائم ہیں کہ یقیناً ایک ڈپلومیٹک کیبل کمیونی کیشن امریکی حکام کیساتھ ہوئی اور ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے۔ لیکن یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں جس سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے کہ یہ کوئی سازش ہے۔
کامران یوسف نے کہا کہ دوسرا یہ کہ عمران خان بار بار تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر کرکٹ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ میں یہ سیاسی میچ آخری گیند تک کھیلوں گا۔ لیکن یہ کرکٹ نہیں سیاست ہے۔ اگر آخری گیند پر آپ کو 172 رنز چاہیں اور دوسری طرف چودھری پرویز الٰہی ہوں جن کو ایک گیند بھی کھیلنا نصیب نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس کوئی اور بھی آپشنز موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج ٹریبون میں اسی حوالے سے حسنات ملک کی ایک خبر چھپی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئین میں ایسی گنجائش موجود ہے جن کو استعمال کرکے صدر مملکت عارف علوی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے باوجود عمران خان سے کہیں کہ آپ وزیراعظم کی حیثیت سے اپنا عہدہ جاری رکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہی وہ وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے درمیان میں آکر کوشش کی کہ ملکی سیاست میں پائی جانے والی حالیہ کشیدگی کو ختم کیا جا سکے تاکہ صورتحال بحران کی صورت اختیار نہ کر لے۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ پکچر ابھی باقی ہے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اتنی آسانی سے اپنا اقتدار چھوڑنے والے نہیں ہیں۔
کامران یوسف کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنے بیانیے کو پیش کرنے کے بڑے ماہر ہیں انہوں نے بڑی چالاکی کیساتھ اپنے اراکین اور اتحادیوں کا ساتھ چھوڑنے کے فیصلے کو بیرونی سازش کیساتھ چھوڑ دیا حالانکہ ہر کسی نے ان کا اس لئے ساتھ چھوڑا کیونکہ وہ ساڑھے تین سال کے اقتدار میں عوام کی فلاح وبہبود کیلئے کوئی کام ہی نہیں کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس متنازع مراسلے پر میری کئی حاضر سروس اور سابق اہم سفارتکاروں کیساتھ گفتگو ہوئی۔ وہ سب اس معاملے کو لے کر بہت پریشان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اہم سرکاری دستاویزات اور ایسے مراسلوں کو پبلک کرنا شروع کر دیا جائے تو عوام کے ہوش اڑ جائیں گے کیونکہ ان میں سے بعض میں تو جنگ تک کی بات کی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا تو یہ خیال ہے کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ امریکا کو اتنا برا بھلا کہیں کہ وہ پاکستان کیساتھ شمالی کوریا اور ایران کی طرح پیش آنا شروع کر دے۔ وہ بہت چالاکی کیساتھ اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو اشتعال دلا رہے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ کارکردگی کی بات کی جائے تو ان کے پاس دکھانے کیلئے کچھ نہیں ہے۔