ٹوبہ ٹیک سنگھ؛ بھائی کے ہاتھوں بہن کا قتل گھٹن زدہ معاشرے کی نشانی ہے

باپ کی موجودگی میں بھائی کا بہن کو قتل کر دینا، نا صرف قتل بلکہ زیادتی بھی، ایسا معاشرہ ایک خاتون کے لیے محفوظ کیسےہو سکتا ہے؟ اگر یہ شخص اپنی بہن کے ساتھ یہ کر سکتا ہے تو کسی دوسری باہر والی کے ساتھ کیا کچھ نہیں کرے گا؟

ٹوبہ ٹیک سنگھ؛ بھائی کے ہاتھوں بہن کا قتل گھٹن زدہ معاشرے کی نشانی ہے

ٹوبہ ٹیک سنگھ کا نام سنتے ہی منٹو کا افسانہ ذہن میں آتا ہے لیکن افسوس کہ شاید اب اس افسانے کے بجائے ہمارے معاشرے کا ایک اور دردناک پہلو یاد آئے۔ عورتوں کے حقوق پر بات کرنے کو ایک خطرہ سمجھنے والا یہ معاشرہ کیا اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ خواتین کے حقوق کھا جانے سے لے کر ان کو قتل کر دینے جیسے واقعات سے بھرے اس معاشرے کا وارث کون ہے؟

میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں قتل ہونے والی ماریہ کی خبر کی بات کر رہی ہوں جس کے اپنے بھائی فیصل نے اعتراف جرم کر لیا اور پولیس کے مطابق ملزم نے ناصرف قتل بلکہ زیادتی کا بھی اعتراف کیا ہے۔ اس بات کو لکھتے سوچتے ہوئے بھی روح کانپ سی جاتی ہے۔

ہمارا معاشرہ ویسے تو سب کو اخلاقیات کا درس دینے، کمنٹس سیکشن میں ایک دوسرے کو سیکھنے سکھانے میں لگا رہتا ہے، ویسے تو یہاں روز آپ کو اچھے اچھے لیکچرز دینے والے بے شمار افراد ملیں گے لیکن یہ معاشرہ عورت کو لے کر منافق ہے۔ اب ادھر ہی دیکھ لیں۔

ایک 22 سالہ بچی کے قتل کو لوگ یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے جان چھڑ وانا چاہتے ہیں کہ کیا پتہ کیا معاملہ ہو۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں جب بھی معاملہ کسی خاتون کے قتل کا تھا یہ معاشرہ یہی سب کر رہا تھا۔ اس معاشرے نے قندیل بلوچ کے اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں غیرت پر قتل کو کیا کچھ نہیں کہا؟

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

مجھے ایک سوال ہمیشہ تنگ کرتا ہے کہ غیرت کا مسئلہ محض عورت تک محدود کیوں ہے؟ کیا عورت غیرت اور عزت کی سولی پر لٹکی ساری زندگی دوسروں کا انتظار کرے کہ کوئی فیصلہ اس کے حق میں ہو گا اور خاموشی سے سب مان کر چلتی رہے تو وہ بہترین ہے لیکن اگر وہ خود کی سننے والی، خود اپنا نام کمانے والی، کبھی کبھار شاید غلطی بھی کرنے والی ہو تو وہ قابل قبول نہیں۔

یہ معاشرہ اس سے زیادہ نہیں گر سکتا۔ وہ لوگ جو سارا دن خواتین کو رہن سہن اور اخلاقیات کا درس دیتے ہیں، اس قتل پر خاموش دکھائی دیتے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کر دینے کو فخر سمجھنے والا یہ معاشرہ عورتوں کے حقوق کو بے وجہ کی آزادی کہنے سے باز کیسے آ سکتا ہے؟ جب تک یہ لوگ اصل واقعات اور مسائل کو سمجھیں گے نہیں اور عورت مرد کی تقسیم سے باہر نہیں آئیں گے تو کبھی یہ معاشرہ ایک ترقی پسند معاشرہ نہیں بن سکتا۔

باپ کی موجودگی میں بھائی کا بہن کو قتل کر دینا، نا صرف قتل بلکہ زیادتی بھی، ایسا معاشرہ ایک خاتون کے لیے محفوظ کیسےہو سکتا ہے؟ اگر یہ شخص اپنی بہن کے ساتھ یہ کر سکتا ہے تو کسی دوسری باہر والی کے ساتھ کیا کچھ نہیں کرے گا؟ یہ ایک کیس ہے لیکن ایسی سینکڑوں لڑکیاں اپنے ہی گھروں میں ہراساں ہونے کے بعد خاموش ہو جاتی ہیں۔ کئی قتل منظرعام پر نہیں آتے۔ یہ سکھایا جانا کہ خاموش ہو جاؤ، آخر کب تک؟

تب تک جب تک ریادتی کرنے والے کو درندہ اور جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو اسے پروٹوکول نہیں دیا جائے گا۔ اسے یہ احساس نہیں دلایا جاتا کہ اس کے ساتھ ظلم ہوا ہے اس میں اس کا قصور نہیں ہے۔ نا کہ کیوں ہوا، کیسے ہوا، وجہ کیا تھی؟

ہمارے ہاں اخلاقیات سکھانے والوں کو بھی اخلاقیات پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میں یہ بالکل نہیں کہتی کہ یہ ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ ٹھیک کرنے والے اسے ٹھیک کرنا ہی نہیں چاہتے۔

رامین محمود صحافی ہیں اور سماء ٹی وی کے ساتھ وابستہ ہیں۔