انتخابات کے نتائج مان لینے میں ہی بہتری ہے

انتخابات کے نتائج مان لینے میں ہی بہتری ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابات 2018 میں تحریک انصاف  واضح اکثریت لے چکی ہے اور اب وہ آزاد امیدواروں کے ساتھ وفاق اور صوبہ پنجاب میں اپنی پوزیشن مزید مستحکم کرتی جا رہی ہے۔ الیکشن میں جہاں بڑے بڑے برج الٹے وہاں  سیاسی جماعتوں کو زور کا جھٹکا زوروں سے نہیں بلکہ بہت زوروں سے لگا۔ لازمی سی بات ہے اس صورتحال میں ان کا رونا بھی جائز ہے لیکن اب لگتا ہے سیاسی جماعتوں کی الیکشن ہارنے کی گرد بیٹھتی جا رہی ہے، یا یوں کہیں کہ انجوں نے کہیں نہ کہیں نتائج کو قبول کرنا شروع کر دیا ہے اور بہتر بھی یہی ہے کہ صورتحال کو قبول کیا جائے اور مستقبل کا سوچا جائے۔

جماعت اسلامی کو سمجھ آ گئی ہے، فضل کے ساتھ اتحاد کا خمیازہ بھگتنا ہوگا

اس صورتحال میں سب سے مدبر قدم جماعت اسلامی کی جانب سے اٹھایا گیا۔ امیرجماعت اسلامی سراج الحق کی جانب سے پریس کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ وہ نہ صرف عمران خان کی حکومت کو قبول کرتے ہیں بلکہ حکومت کے اچھے اقدامات کو سراہیں گے بھی۔ وہ ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ لگتا ہے جماعت اسلامی کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ اتحاد کر کے جو غلطی کی تھی اس کا خمیازہ کم سے کم اگلے انتخابات تک تو انہیں بھگتا ہی پڑے گا۔ اس لئے اس صورتحال سے جتنی جلدی وہ سمجھوتا کر لیں بہتر ہے۔



ایم کیو ایم کی بہتری بھی حکومت میں ہے اور دلچسپی بھی

دوسری جانب جہانگیرترین کی ایم کیوایم پاکستان کے رہنماؤں سے ملاقات کا نتیجہ آنا تو ابھی باقی ہے لیکن ایم کیو ایم کو حکومت میں بیٹھنے کی جو لت لگ چکی ہے اس کا فائدہ یقینی طور پر پاکستان تحریک انصاف کو ہو ہی جائے گا۔ بلکہ ان کی بقا بھی اسی میں ہے کہ حالات کی چال کو بھانتے ہوئے حکومتی بینچوں پربیٹھ جائیں اور عوام کے لئے بالخصوص کراچی والوں کے لئے کچھ کر گزریں ورنہ اگلے انتخابات میں ان کی وہی صورتحال ہوگی جو پیپلزپارٹی کی پنجاب میں رہ گئی ہے۔ مطلب صفر بٹا صفر۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بے آسرا، بے سہارا سی نظر آتی ہیں

پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی موجودہ صورتحال بالکل ایک ایسے معذور شخص کی ںظر آ رہی ہے جس کو کھڑا کر کے اس کی بیساکھیاں ہی چھین لی ہوں۔ کیونکہ ن لیگ کو مسلم لیگ ق سے توقعات تھیں کہ وہ ان کے ساتھ پنجاب حکومت میں بیٹھنے کے لئے تیار ہوگی۔ لیکن ہوا کچھ یوں کہ مسلم لیگ ق نے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر صرف پنجاب نہیں وفاق میں بھی حکومتی بینچز پکی کر لیں۔ یوں جہاں پیپلز پارٹی معذوری کا شکار نظر آ رہی ہے، وہیں مسلم لیگ ن پنجاب میں لولی لنگڑی نظر آ رہی ہے۔



اس ساری صورتحال میں مولانا فضل الرحمٰن کی آخری امیدیں بھی دم توڑتی جا رہی ہیں، کیونکہ شہباز شریف ان کے ساتھ مزاکرات کے حوالے سے ویسے ہی خدشات کا اظہار کر چکے ہیں اور پیپلزپارٹی والے تو پوچھ ہی نہیں رہے۔

مصنفہ رپورٹنگ کے شعبے سے منسلک ہیں اور مختلف صحافتی اداروں میں خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔