چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے مستقبل کا فیصلہ آج ہوگا

چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے مستقبل کا فیصلہ آج ہوگا
اسلام آباد: سینیٹ کی تاریخ میں پہلی بار چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کو عہدے سے ہٹانے کی قراردادوں پر رائے شماری آج ہوگی۔ حزب اختلاف کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جاچکی ہے جس کے جواب میں حکومت اور ان کے اتحادیوں نے پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور ان کیخلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کرادی۔

سینیٹ کا اجلاس آج دوپہر دو بجے طلب کیا گیا ہے، پہلے چیئرمین سینیٹ اور پھر ڈپٹی چیئرمین کیخلاف تحریک عدم اعتماد پرکارروائی ہو گی۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلیے اپوزیشن کو 53 ارکان کی ضرورت ہے جبکہ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس 64 ارکان ہیں، رائے شماری خفیہ طریقے سے ہوگی۔ بیلٹ پیپر کی چھپائی مکمل کر لی گئی ہے۔ پریذائیڈنگ افسر محمد علی سیف اجلاس کی صدارت کرینگے۔ حکومتی اور اپوزیشن بینچوں نے اپنے اپنے ارکان کو اجلاس میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔

اعتماد کی جنگ سے قبل سیاسی گرما گرمی عروج پر ہے اور دونوں جانب سے عددی اکثریت کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔

اپوزیشن نے صادق سنجرانی کی جگہ میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور اپوزیشن کے چیئرمین سینیٹ کے لیے نامزد امیدوار میر حاصل بزنجو نے صادق سنجرانی کو ایک بار پھر استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا ہے جبکہ سینیٹ میں قائدِ ایوان شبلی فراز نے صاف انکار کرتے ہوئے آخری لمحے تک لڑنے کا اعلان کیا ہے۔

شبلی فراز کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے خلاف اپوزیشن کے اقدام پر خود اپوزیشن کی اکثریت ناخوش ہے اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو شکست ہوگی۔

تحریک انصاف کے ہی سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی نام نہاد جمہوری سوچ اور جمہوری اخلاقیات ڈرامے سے زیادہ کچھ نہیں جبکہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کے مطابق سینیٹ میں ہونے والی رائے شماری میں کامیابی صادق سنجرانی کی ہوگی، یہ سیاسی ٹارزن بننے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن مارے جائیں گے۔

ایوان کی پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو اپوزیشن بینچوں پر 67 ارکان براجمان ہیں تاہم جماعت اسلامی کے 2 ارکان ہیں جنہوں نے ووٹنگ میں شریک نہ ہونے کا اعلان کر رکھا ہے۔

اس طرح اپوزیشن کے پاس 103 کے ایوان میں سے 65 ووٹ ہیں جن میں سے مسلم لیگ (ن) کے 30، پیپلز پارٹی کے 21، نیشنل پارٹی کے 5، پختوانخوا ملی عوامی پارٹی کے 4، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 4 اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایک سینیٹر ہے۔

اس وقت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر چوہدری تنویر ملک سے باہر ہیں جس کے بعد  اپوزیشن کو توقع ہے کہ ن لیگ کے 64 ارکان چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیں گے۔

دوسری جانب حکومتی بینچز پر 36 سینیٹرز موجود ہیں جن میں سے پاکستان تحریک انصاف کے 14، سینیٹر صادق سنجرانی سمیت بلوچستان عوامی پارٹی کے 8، سابقہ فاٹا کے 7، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 5، مسلم لیگ فنکشنل اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا ایک ایک سینیٹر ہے۔