میں بھی پاکستان ہوں!

میں بھی پاکستان ہوں!
تحریر: (نضیرا اعظم) ایک ہفتہ ڈیلس میں رہنے کے بعد گھر پہنچی تو گھر کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ لگتا تھا کہ چاروں کمرے روٹھے ہوئے ہیں اور منہ سجائے ہیں، ہر کمرے میں کپڑوں اور کتابوں کی شورشیں چل رہی تھیں، اشیا ء میں بے چینی سی تھی۔ تہہ خانے میں  میری لائبریری میں ، الماریوں کے شیشوں کے پار سجی سجائی کتابوں کا جیسے دم گھٹ رہا تھا، ان کی کوئی شنوائی نہ تھی کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں تھا، بس بے بسی کے عالم میں کسی کے عالِم بننے کے انتظار میں تھیں۔

 یہاں ڈیسک ٹاپ کی کرسی کی پشت پر ایک پاجامہ سراپا احتجاج تھا، سی ڈی کی الماری کے پٹ کھلے ہوئے تھے اور چند سی ڈی زمین پر لوٹیں  لگا رہے تھے، ایک طرف رکھے صوفے پر دھلے کپڑوں کا انتشار تھا۔

اسٹڈی روم میں میز پر رکھے دو لیپ ٹاپ منہ پھاڑے قہقہے لگا رہے تھے، بکھری کتابوں اور کاغذات پر تبرے بھیج رہے تھے،ہر طرح کے قلم شرارتی  بچوں کی طرح ادھر ادھر لڑھک رہے تھے، کوڑے دان  بیکار کاغذوں اور پرانے رسالوں سے ٹھنسا ہوا تھا، اور اس ہجوم کاغذاں میں ایک آدھ قلم بھی جھانک رہا تھا جیسے چھپن چھپائی کے کھیل میں مصروف ہو، یہاں بھی ایک طرف ٹوکری میں دھلے کپڑے اپنی بے بسی پر نوحہ کناں تھے۔

ہمارا مہمان خانہ ویسے تو صاف ستھرا تھا مگر کچھ کپڑے استری کے انتظار میں بستر پر محو استراحت تھے اور سائیڈ ٹیبل پر چند کتابیں، چاکلیٹ کی پنیاں کھلکھلا رہی تھیں۔ میرے سونے کے کمرے میں بستر بنا ہوا تھا لیکن یہاں بھی کتابیں ناراض نظر آ رہی تھیں کہ کچھ کھلی ادھوری پڑھی کتابیں غصہ کے عالم میں تھیں جبکہ میرا آئی پیڈ اپنا مقام جانتا تھا اور اسے ان کے غصے یا رنجیدگی کی کوئی پرواہ نہ تھی۔

اب آپ ہی سوچیئے کہ اس دور میں کتابیں پڑھنے کی کسے فرصت ہے؟ اس کمرے کے سامنے ایک چھوٹا کمرہ، جو عمو ماً مہمانوں کی اکژیت کی وجہ سے دوسرے مہمان خانے کا کام دیتا تھا، ننھے بے زبان بچے کی مانند حیرت سے سب کچھ تک رہا تھا، اسے اسکا ادراک نہیں تھا کہ اگر لیمپ جل رہا ہے تو بجھایا کیوں نہیں جاتا؟ اور سائیڈ ٹیبل پر رکھی گھڑی ٹک ٹک کیوں نہیں کر رہی؟

کھانے کی میز سراپا احتجاج تھی، نمک دانی اور کالی مرچ کی شیشی آپس میں سرگوشیوں میں مصروف تھیں کہ کھانا رکھنے کی میز مگر اس کے علاوہ بہت کچھ نظر آرہا تھا، اشتہارات کے رنگین کاغذ،ہر طرح کے بل، رسیدیں، لفافے، لیپ ٹاپ اور  خریداری کی رسیدیں۔

غسل خانے جیسے مراقبے میں ڈوبے ہوئے تھے انہیں اس کی پرواہ نہ تھی کہ کون آیا کون گیا کس نے  سنک پر رکھے مائع صابن کو  چھیڑا یا ادھر ادھر بکھرے میک اپ سامان کو استعمال کیا وہ تو بس اپنی ہی دنیا میں تھے۔

باورچی خانہ  ویسے تو ٹھیک تھا مگر دھلے برتن ڈش واشر میں پڑے باہر نکلنے کے لئے بیتاب تھے، بجلی کے چولہے پر چند پتیلیاں شاید اس خوف سے لرزاں تھیں کہ نہ جانے کب آگ کی تپش انہیں جھلسا دے۔

اگر کہیں کچھ سکون تھا تو  بیٹھک میں تھا، یہاں صوفے، پاکستان سے منگوائی گئیں منقش میزیں، خوبصورت کشن، اور فرنچ کرسیاں اپنی اپنی جگہ مسکرا رہی تھیں اور غرور سے سر اٹھائے ، حقارت بھری نظروں سے بقیہ شورش اور انتشار  کو تک رہی تھیں۔ انہیں اس بات پر بھی غصہ تھا کہ یہ سب  اپنی اپنی جگہ سکون سے کیوں نہیں رہتے ، سارا وقت گھر میں اودھم سا مچا رہتا ہے۔

ہاں ایک ڈیک ہے جہاں رنگا رنگ پھولوں اور سبزیوں کے گملے رکھے ہیں، بیلا اپنی خوشبو بکھیر رہا ہے، گیندے، للی اور آئیرسیس پر تتلیاں منڈلا رہی ہیں، برڈ فیڈر پر رنگ برنگی چڑیاں چہچہا رہی ہیں۔ طرح طرح کے کیکٹس، ایلو ویرا، پلیا کے پودے ایک عجیب بہار دکھا رہے ہیں ٹماٹر اور کھیرے کے پودے اپنی امت کے اضافے پر نازاں ہیں۔

میں خاصی دیر یہاں بیٹھی رہی، یہی ایک جگہ تھی جہاں گھر کے اندر کے انتشار اور بے چینی سے کچھ لمحوں کے لئے ہی، بچا تو جا سکتا تھا لیکن یہ کیا؟ کیکٹس کے پودے جو اسٹینڈ پر رکھےتھے اور دیگر پھولوں کے مقابلے میں بلندی پر تھے، اپنی اوقات دکھا رہے تھے، پھولوں پر اوچھے وار کر رہے تھے کیوں نہ کریں؟ آخر یہ ان کا حق بھی تو ہے  یہ بلند ہیں اور خوبصورت منقش گملوں میں  ایستادہ ہیں۔

”آخر میں کیا کیا کروں؟ ایک جان اور سو کام۔“ میں بھنا اٹھی تھی اور میرے عوامی سوچ اور عوامی رویوں کے عادی شوہر دھیمے سے مسکراتے ہوئے بولے ”سب ہو جائے گا آخر تمہیں اور بھی تو کام ہیں۔“ میں تھوڑا مطمئن ہو گئی۔ ”اچھا مجھے اگلے مہینے کچھ لوگوں سے ملنے ہیوسٹن اور شکاگو جانا ہے۔“ ٹھیک ہے میں ٹکٹ اور ہوٹل۔۔۔۔۔نہیں نہیں ہوٹل سے تو خرچہ بڑھ جائے گا، میں کسی کے گھر ٹھہر جاؤں گی۔“  میں نے اپنے عوامی شوہر کو تسلی دی۔ اور اب نہ جانے کیوں مجھے یقین ہو گیا کہ ایک دن اللہ آسمان سے اتر کر ہمارے پورے گھر کو درست کردے گا۔