یاد اسیر، ادب کا جھونکا

ادب معاشرتی رویوں کے مجموعہ سے جنم لیتا ہے جس میں انسانی زندگی کو غزل، نظم، نثر، گیت، تحقیق یا مصوری کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے۔ شاعری، نثر نگاری، تحقیق کسی نہ کسی طور پر معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں، کہیں معاشرتی رویے کی ظاہری تصویر کو عیاں تو دوسری طرف اندورنی جذبات خیالات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔

اسی سلسلے کی کڑی ضلع قصور کے گاؤں ہرسہ نوشہرہ سے ایک نوجوان بزرگ منشا ساجد کی زیر نگرانی " یاد اسیر" کے نام سے ادبی ذوق رکھنے والے منفرد مزاج شعرا اور سامعین کے لئے ایک نشست کا اہتمام کیا گیا۔ دسمبر کی خنکی اور الہڑ انداز کی سپہر جہاں دھوپ اور دھند میں ادبی بیٹھک سے معاشرتی مسائل اور انسانی جذبات کے ترجمان شعرا کا کلام سن کے الفاظ کی تاثیر سے مستفید ہوا جا سکے۔

یاد اسیر جناب اسیر عابد کی یاد میں ہونے والے سالانہ محفل مشاعرہ میں بہترین ادبی خدمات کرنے والے شعرا، نثر نگار اور محققین میں گڈ وشرز ایوارڈز بھی دئیے گئے۔ ان کے کام کو سراہا گیا۔ منتظم یاد اسیر پروفیسر ادریس ساجد کا نیا دور سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یاد اسیر کا مقصد ادب کے فروغ کے لئے کوشش کرنا ہے۔ دور حاضر میں جہاں الفاظ صفحہ قرطاس کی بجائے کمپیوٹر اور موبائل پر ڈیجیٹل ہو رہے ہیں وہاں ادبی ذوق کے لئے محافل بہت کم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسی سلسلہ کی کڑی کو جوڑتے ہوئے پتوکی میں یاد اسیر منانے جا رہے ہیں۔ ڈیجیٹل دنیا میں کتاب کون پڑھے، کتاب سے ٹوٹتا سلسلہ، معاشرتی مسائل، نفسیاتی دباؤ کی بڑی وجہ ہے۔ مطالعہ، اخلاقیات و روایات اور معلومات کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ اس سلسلہ کے لئے یاد اسیر میں کتاب میلہ کا اہتمام کیا جائے گا جہاں مختلف پبلشرز کے سٹال کے ساتھ ساتھ لکھاریوں کو بھی اپنی کتابیں بیچنے کے لئے سٹال فراہم کیے جائیں گے۔



یاد اسیر کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ادریس ساجد کا کہنا تھا رئیس الترجمین اسیر عابد نہ صرف شاعر اور نثر نگار تھے بلکہ وہ آلات موسیقی پر بھی مضبوط گرفت رکھتے تھے۔ جنہوں نے شہر آفاق دیوان غالب، ڈاکٹر محمد اقبال کا مجموعہ بال جبریل (جبریل اڈاری)، قیصدہ بردہ شریف کا پنجابی میں منظوم ترجمہ کیا، نیز قصیدہ بردہ شریف کا اردو منظوم ترجمہ کیا۔ پنجابی کی شہر آفاق تصنیف ہیر وارث شاہ کا اردو منظوم ترجمہ کیا۔ کلام بابا بلھے شاہ کو اردو نثر کا پہناوا پہنایا۔ ان کی اردو شاعری کی  تصنیف "صحرا عبور کرنا ہے" بھی شائع ہو کر اردو اور پنجابی ادب میں نمایاں مقام حاصل کر چکی ہے۔ ان تصانیف پر جامعہ پنجاب سمیت مختلف جامعات میں مقالہ جات بھی لکھے جا چکے ہیں۔

پروگرام کا آغاز باقاعدہ طور پر تلاوتِ کلام پاک سے ہوا جس کی سعادت محمد ذیشان نوشاہی نے حاصل کی اور نعتِ رسول مقبول ﷺ کی سعادت محمد احمد نوشاہی نے حاصل کی۔ مشاعرے کی صدارت قصور سے آئے ہوئے، معروف شاعر پروفیسر محمد لطیف اشعر نے کی اور مہمان ترین جہاں داد، سلمان حمید کھوکھر، ذوالفقار احمد، پروفیسر ڈاکٹر محمد انوار، احمد اعجاز، پیرزادہ حامد شاہ بخاری اور سیف اللہ زاہد تھے۔

مہمانِ اعزاز میں سید عامر حسین تقوی، ارشد پاشا، محمد رفیع، شاہد اقبال عبدلمنان اور افتخار احمد، معروف فوک گلوکار خادم وسائی پوری اور زاہد اقبال بھیل تھے۔



پروگرام کی نظامت کے فرائض محمد شفیق شاہ نے ادا کیے۔ مشاعرے کی خوش آئند بات یہ تھی کہ شعرا کرام نے رئیس المترجمعین شاعر پروفیسر اسیر عابد کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔

اختتام پر چئیرمین گڈ وشرز پاکستان محمد منشا ساجد نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ سب ادبی شخصیات کی موجودگی سے اس محفل کو چار چاند لگ گئے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ اس طرح کے ادبی پروگرام ہوتے رہے گے۔ ہمارا منشور ہے کہ ادب کے ذریعے ہی معاشرے میں انتہا پسندی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ادبی خدمات پیش کرنے پر گڈ وشرز پاکستان کی طرف سے ادب سیوک ایوارڈ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایوارڈ دیئے گئے۔ ان میں بہترین کتاب ایوارڈ پروفیسر محمد عباس مرزا  کی نعتیہ کتاب "آقا ﷺ آقا ﷺ" کو دیا گیا۔ صدیق حیرت کی کتاب "امبروں اگے پینگ " اور ادبی سیوک ایوارڈ زاہد اقبال بھیل لقمان شیدائی، ارشد پاشا، ظہیر عباس کو دیا گیا۔

گڈ وشرز پاکستان کی طرف سے بہترین صحافتی خدمات پر سید عامر حسین تقوی کو ادب سیوک صحافت ایوارڈ دیا گیا۔ گڈ وشرز پاکستان تین عشروں سے ادب پر کام کر رہی ہے۔ محمد منشا ساجد ضلع قصور میں اشاعتی ادارے کے ساتھ بطور مدیر کام کررہے ہیں اس کے علاوہ ادبی محافل مشاعرے اور ایوارڈ تقاریب کا انعقاد کر چکے ہیں۔

ادب معاشرتی مسائل کے ادراک اور نفسیاتی مسائل، انتہا پسندی اور عدم برداشت کی اس فضا کے خاتمے کے لئے بہترین تفریحی اور معلوماتی ذریعہ ہے۔ کتاب میلوں اور مشاعروں سے گفتگو مکالمے اور تنقید سے بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

کامران اشرف صحافت کے طالب علم ہیں۔