صحافت پڑھتے پڑھاتے قریبا 20 برس گزر گئے اور تجربے سے یہی معلوم ہوا کہ کتابی صحافت اور عملی صحافت قدرے مختلف ہیں ۔تاہم اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ صحافتی تعلیم حاصل کرنا ضروری نہیں جیسا کہ کچھ دوستوں نے سمجھ لیا ہے ۔ایک پڑھا لکھا پروفیشنل ڈگری کا حامل صحافی یہ جان سکتا ہے کہ کب اور کہاں اس نے صحافتی قوائد و ضوابط کی پاسداری نہیں کی ہے ۔بصورت دیگر ایسے من گھڑت صحافیوں کی کمی نہیں جو کہ ذاتی خواہش اور خوشامد کی روشنی میں ایک خبر تیار کرتے ہیں اور پھر اسکے دفاع میں ڈٹ جاتے ہیں ۔
کہا جاتا ہی کہ صحافی کو مذہبی اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر اور معاشرتی برائیوں سے پاک ہونا چاہئیے ۔گویا یہ کوئی انسان نہیں فرشتہ ہے ۔قارئین کو یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کہ میڈیا سے وابستہ لوگ ہمارے ہی معاشرے سے ہماری ہی طرح کے انسان ہوتے ہیں ۔اس لیۓ وہ مذہبی لسانی اور سیاسی وابستگیوں سے مبرا نہیں ہوتے ۔دولت کی چمک دمک میں صحافی کی آنکھیں بھی چندھیا جاتی ہیں ۔عام صحافی سے لیکر میڈیا مالکان تک سب ہی ان عوامل کے زیر اثر کام کرتے ہیں ۔
کہنا بہت آسان ہے مگر ایک عام آدمی کی روزمرہ کی گفتگو ہو یا ایک صحافی کا قلم دونوں نظریات و تعصبات سے آزاد نہیں ہوتے ۔تاہم ایک صحافی کو ان باتوں کا ادرک ہونا اشد ضروری ہے کہ کب اور کہاں اسکی سوچ اور نقطہ نگاہ متعصبانہ ہیں اور یہ عموما تب ہوتا ہے جب آدھا سچ بتایا جائے جب خبر کے اندر تجزیہ شامل ہو جائے یا لفاظی کے زریعے اسے مخصوص رنگ دینے کی کوشش کی جائے ۔خبر اور تجزیے میں فرق بھی ہوتا ہے ۔خبر کو من و عن بیان کرنا چاہئیے ۔تاہم کسی ایک مخصوص جماعت یا گروہ کے متعلق ہمشہ منفی خبریں دینا اور دوسرے کی حمایت میں رپورٹنگ کرنا ایک افسوسناک رجحان ہے ۔کالم کے اندر کوئی بھی لکھاری اپنی راۓ دے سکتا ہے تاہم منطق اور دلیل کیساتھ بات کی جائے تو تو قارئین قائل ہوتے ہیں ۔
معروضیت قارئین میں بھی نہیں ہوتی ۔تحریک انصاف سے وابستہ افراد اپنی جماعت کی حمایت میں آنے والی خبروں پر خوش لیکن تنقید پر سیخ پا ہوتے ہیں ۔
حکومتی جماعت کو ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ ان پر ہمیشہ تنقید کی جاتی ہے اور وہ جواب ہمیشہ کارکردگی کی صورت میں دے سکتے ہیں ۔تاہم صحافی کو چاہئیے کو وہ ہمیشہ مثبت تنقید کرے اور کسی سیاسی جماعت کا آلہ کار نہ بنے ۔
صحافی تک بات ہوتی تو خیر تھی اب تو لوگ سمجھتے ہیں ٹی وی اور اخبار بھی سیاسی جماعتوں کے ہیں جو صرف ایک سیاسی جماعت کی خبروں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور دوسروں کو نظر انداز کرتے ہیں ۔
تعصب ہمیں اچھے کی اچھائی اور برے کی برائی دیکھنے سے محروم کر دیتا ہے یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ تعصب ہماری آنکھوں پر پڑا وہ پردہ ہے جس سے ہمیں اچھا بھی برا لگے اور برے کو ہم اچھا کہہ دیں ۔
وجہ صرف یہ ہے کہ ہماری سوچ اتنی منفی ہو چکی ہے ہمیں کچھ بھی مثبت نظر نہیں آتا ۔
پڑھے لکھے قارئین کے لئیے بہت آسان ہے کہ اخبارات کے صفحات ہوں یا سوشل میڈیا پر ہونے ولے نام نہاد مباحثے یہ معلوم کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ کون کس کی ایما پر بول رہا ہے ۔
جھوٹ ، نفرت ، منفی سوچ کا اتنا پرچار کیا جا چکا ہے کہ اب سچ ،محبت ،مثبت سوچ اور اتحاد کی آواز کسی کو سنائی نہیں دے رہی ۔