Get Alerts

نااہل کرنے کیلئے توشہ خانہ تحائف کا پوچھا جارہا ہے، عمران خان کا عدالت میں بیان

عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ یہ درست نہیں کہ میں نے جھوٹا بیان اور ڈیکلریشن جمع کروایا۔ استغاثہ نے گواہ پیش نہیں کیا جس نے بتایا ہو کہ تحائف میں نے رکھے۔ میں نے تحائف ٹیکس گوشواروں کے فارم بی میں لکھے تھے۔ مجھ سے تحائف کا صرف اس لیے پوچھا جارہا ہے تاکہ مجھے نااہل کرسکیں۔

نااہل کرنے کیلئے توشہ خانہ تحائف کا پوچھا جارہا ہے، عمران خان کا عدالت میں بیان

توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیراعظم   عمران خان نے 35 سوالات پر مبنی 342 کا بیان عدالت میں ریکارڈ کروا دیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ فوجداری کیس کی سماعت کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی مقررہ وقت 9 بجے عدالت پیش نہیں ہوئے۔

معاون وکیل نے استدعا کی کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے نیب کورٹ میں پیش ہونا ہے کچھ وقت دیا جائے۔ عدالت نے سماعت میں ساڑھے 12 بجے تک کا وقفہ کر دیا۔

بعدازاں دوبارہ سماعت شروع ہونے پر چیئرمین پی ٹی آئی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء خواجہ حارث اور گوہرعلی خان اور الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن عدالت پیش ہوئے۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے 342 کا بیان ریکارڈ کرا دیا۔ عدالت میں سوالات پڑھ کر سنائے گئے جس پر سربراہ پی ٹی آئی نے جوابات دیے۔

معزز جج نے چیئرمین پی ٹی آئی کو روسٹرم پر بلایا۔ جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ میں سوالات سن رہا ہوں۔ جوابات دینا چاہیں تو دیں۔

جج نے مزید کہا کہ عدالت سوالات آپ کو پڑھ کر سنائےگی۔ باقی آپ کی مرضی ہے۔

جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ کیا آپ نے شکایت کنندہ کے الزامات پڑھے؟

چیئرمین پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ میں نے شکایت کنندہ کے بیانات نہیں سنے۔ بیانات میری موجودگی میں ریکارڈ نہیں ہوئے۔ مجھے گواہان کے بیانات قلمبند کرتے وقت ہر سماعت پراستثنیٰ دیا گیا۔

عمران خان نے مزید کہا کہ میری موجودگی میں فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔ مجھے فرد جرم پڑھ کر نہیں سنائی گئی۔ میں نے کیس میں کسی کو نمائندہ مقرر ہی نہیں کیا، سیشن عدالت نے خود ہی میرا نمائندہ مقرر کیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ سیشن عدالت نے میرے مقررہ نمائندہ کا موقف ٹھیک طرح نہیں لکھا۔میں نے نمائندہ مقرر کرنے کی کوئی درخواست جمع نہیں کروائی۔ میرے وکلاء نے عدالت کے نمائندہ مقررکرنے کی مخالفت بھی کی۔ توشہ خانہ کیس میں ملزم صرف ایک ہے۔سیشن عدالت خود سے میرا نمائندہ مقررنہیں کرسکتی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ 17 جولائی کو مجھے گواہان کے بیانات کی کاپی فراہم کی گئی۔ 31 جولائی کو مکمل دن میں عدالت میں رہا اور گواہان کے بیانات پڑھے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے شکایت دائر کرنے کیلئے کسی کو نامزد نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن نے 120 دنوں کے بعد شکایت دائر کی۔ 2017 سے 2021 تک اپنے اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع کروائے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا جو بدنیتی پر مبنی تھا۔ ریفرنس میں قانون کو غلط طریقہ کار سے سمجھا گیا تھا۔ریفرنس میں 2017 سے 2019 کے اثاثہ جات کا ذکر کیا گیا۔ جبکہ 2018-19میں دائر جواب میں نہیں کہا کہ 58 ملین روپے نجی بینک میں جمع کرائے۔

چیرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ قانون میں نہیں لکھا کہ تحائف کے نام جمع کروائے جائیں۔ الیکشن کمیشن فارم بی میں تحائف کے نام لکھنے کا کالم موجود ہی نہیں۔

انھوں نے کا کہ لسٹ بناتے وقت تحائف کی تفصیلات نہیں بنائی گئیں۔ گواہان نے تحائف کی مالیت کا چالان بھی عدالت میں جمع نہیں کروایا۔ مجھ سے تحائف کے حوالے سے دستاویزات بناتے وقت رابطہ نہیں کیا گیا۔ صرف اتنا کہوں گا کہ دستاویزات کو سوالنامے میں نہیں لکھا جاسکتا۔ تحائف کے دستاویزات مہیا کرنے والا بطورگواہ عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ دستاویزات کی تصدیق نہیں  کی گئی۔ کسی فرد نے دستاویزات کا بطور گواہ اقرار نہیں کیا۔ تحائف کے حوالے سے دستاویزات کا کبھی مجھ سے پوچھا ہی نہیں گیا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ کیبینٹ ڈویژن کی جانب سے کوئی گواہ شکایت کنندہ عدالت میں نہیں لایا گیا۔ دستاویزات 160 صفحات پر مشتمل ہیں لیکن کوئی گواہ سامنے نہیں۔ تحائف کے دستاویزات کو بطور ثبوت عدالت میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ الیکشن کمیشن نےفیصلہ جاری کرنے کے بعد نجی بینک کا ریکارڈ طلب کیا۔ الیکشن کمیشن نے کبھی نجی بینک کے حوالے سے تفصیلات پوچھی ہی نہیں۔ نجی بینک کا ریکارڈ قانون کے مطابق نہیں مانگا جا سکتا۔

سابق وزیر اعظم نے عدالت کو بتایا کہ بینک سٹیٹمنٹ کا ریکارڈ میری غیر موجودگی میں الیکشن کمیشن نے طلب کیا، بینک سٹیٹمنٹ کا ریکارڈ لینے اور جمع کروانے والا فرد بطور گواہ پیش نہیں ہوا۔ یہ درست نہیں کہ میں نے جھوٹا بیان اور ڈیکلریشن جمع کروایا، استغاثہ نے گواہ پیش نہیں کیا جس نے بتایا ہو کہ تحائف میں نے رکھے۔ میں نے 2019-20 میں غلط اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروائے۔ میں نے تحائف ٹیکس گوشواروں کے فارم بی میں لکھے تھے۔ میرے ٹیکس کنسلٹنٹ نے قیمتی تحائف کا ذکر الیکشن کمیشن میں دائر اثاثہ جات میں کیا۔ مجھ سے تحائف کا صرف اس لیے پوچھا جارہا تاکہ مجھے نااہل کرسکیں؟ میرے خلاف فوجداری کی شکایت دائر کی گئی۔

یاد رہے کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو منگل کی صبح نو بجے تک بیان ریکارڈ کرانے کی مہلت دی تھی۔

گزشتہ روز جج ہمایوں دلاور نے چیئرمین پی ٹی آئی کی 342 کا بیان ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کی تھی۔

دوران سماعت عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ انہیں گزشتہ روز ہی پینتیس سوالات فراہم کیے گئے ہیں۔ وہ سوالات بغور پڑھنے کے بعد ہی بیان ریکارڈ کروانا چاہتے ہیں۔

جج نے عمران خان کو کہا تھا کہ آپ کی لیگل ٹیم آپ کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے۔ اگر خواجہ حارث چاہیں تو ایک ایک سوال آپ کو بتا اور سمجھا سکتے ہیں۔