متنازع توسیع کے بعد اقتدار کی بساط پر رسہ کشی میں اضافہ ہو گیا ہے

متنازع توسیع کے بعد اقتدار کی بساط پر رسہ کشی میں اضافہ ہو گیا ہے
جنرل باجوہ کی توسیع کے معاملے نے جس طرح ان کے ادارے اور خود ان کی ساکھ کو متاثر کیا ہے، اس کے بعد ان کی مدت ملازمت کی مشروط عدالتی توسیع خود ان کے اپنے لیے درد سر بن چکی ہے۔ مدت ملازمت کی یہ توسیع نہ صرف متنازعہ بن چکی ہے بلکہ 6 ماہ کے اندر اس کو پارلیمان سے توسیع کروانے کے عدالتی حکم نے اب اس معاملے کو مکمل طور پر سیاسی رنگ دے دیا ہے۔ ایسے حالات میں جب ملک پہلے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور موجودہ مصنوعی سیاسی عمل جسے سیاسی انجینئرنگ اور دھاندلی کے ذریعے جنم دیا گیا تھا، اب انتہائی کمزور ہو چکا ہے۔

جنرل باجوہ کا یوں متنازعہ ہونا اور اخلاقی طاقت کھو دینا کسی بھی صورت تحریک انصاف کی حکومت اور اس سیاسی عمل کے خالقوں کیلئے نیک شگن نہیں ہے۔ اب اگر جنرل باجوہ کو اپنی طاقت بحال کرنی ہے تو انہیں اسٹیبلشمنٹ میں موجود اپنے مخالفین کو کمزور کر کے قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر مجبور کرنا ہوگا۔ وگرنہ عدالت سے ایک نئی زندگی ملنے کے باوجود وہ ہر وقت کسی نئی چال کے شکار ہونے کے اندیشے میں مبتلا رہیں گے۔ اگر تو جنرل باجوہ اپنے مخالف عناصر کو باہر کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ان کیلئے مستقبل آسان ہو جائے گا۔ لیکن بہرحال اب انہیں اپنی ملازمت کا بقیہ حصہ ایک متنازع اور مدت ملازمت میں توسیع کے خواہشمند سربراہ کے طور پر جانے، جانے کی شہرت کے ساتھ  گزارنا پڑے گا۔

شاید وہ اس طرح سے تحریک انصاف کی حکومت کے ذریعے اپنی باجوہ ڈاکٹرائن کو کسی نہ کسی طور زندہ تو رکھ پائیں گے لیکن ایک کمزور اور متنازعہ فوجی سربراہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں باآسانی بلیک میل ہوتا رہے گا۔ ماضی قریب میں ہم نے جنرل مشرف کی مثال دیکھ رکھی ہے کہ کیسے اسے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی ہر خواہش کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا تھا۔

دوسری جانب پارلیمان میں حکومت توسیع کے معاملے کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے یا آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے سادہ اکثریت سے پاس کروا سکتی ہے۔ اس ضمن میں اسے قومی اسمبلی کی حد تک اپوزیشن کی ضرورت نہیں جبکہ سینیٹ سے اگر صادق سنجرانی جیسے مہرے کے خلاف اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنائی جا سکتی ہے تو پھر جنرل باجوہ کے معاملے میں تو وہاں سے دو تہائی اکثریت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر تو مقتدر قوتوں کے اندر موجود باجوہ مخالف کیمپ مستقبل قریب میں مکمل طور پر اکھاڑ باہر پھینک کیا جاتا ہے تو پھر مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی چیف سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی سعی میں انہیں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ووٹ دینے سے ہرگز نہیں ہچکچائیں گی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان جن قوتوں کے اشارے پر اسلام آباد آئے تھے، ان کے تعاون سے انہیں کچھ ضمانتیں دی گئیں تھی۔ جن میں سے ایک تحریک انصاف کی حکومت کی چھٹی یا نئے عام انتخابات کا انعقاد تھا۔

اگر ان شرائط کو اب تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے تو مولانا پھر اسلام آباد کا رخ کر سکتے ہیں۔ اس مرتبہ جب خود آرمی چیف بھی کمزور پوزیشن میں چلے گئے ہیں تو نہ مولانا کسی گراؤنڈ میں قیام کریں گے اور نہ ہی عمران خان کیلئے اپنی حکومت بچانا ممکن رہے گا۔ طاقت کی بساط پر جنرل باجوہ کو توسیع دینے کے باوجود تحریک انصاف مستحکم پوزیشن پر نہیں آئی ہے۔

دوسری جانب مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی اس وقت محض سٹیٹس کو میں سے اپنا حصہ چاہتے ہیں جبکہ یہی حالات مولانا فضل الرحمان کے بھی ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اس وقت سٹیٹس کو، کو تبدیل نہیں کرنا چاہتی بلکہ اس میں سے اپنے حصے کی متمنی دکھائی دیتی ہے۔ طاقت کی سیاست کا بنیادی مقصد اقتدار تک رسائی ہوتا ہے اور اس مقصد کیلئے تمام تر اصولوں کو بالائے طاق رکھا جاتا ہے لیکن جب مقصد محض اقتدار کا حصول ہو تو پھر مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور فضل الرحمان کو سویلین بالادستی کے کھوکھلے نعرے نہیں لگانے چاہیں۔ عدالت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت پارلیمان سے مشروط کر کے ایک طرح سے منتخب نمائندوں اور سیاسی جماعتوں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اقتدار کا توازن جمہوری بالادستی کے پلڑے میں موڑ سکتے ہیں۔ اگر تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہو جائیں کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن سے نہ صرف دیگر قابل افسران کی حق تلفی ہوتی ہے بلکہ اس سے محلاتی سازشیں بھی جنم لیتی ہیں تو آئندہ کیلئے کم سے کم مقتدر قوتوں کے سیاست میں اثرو رسوخ کو کم کیا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کو اس امر کا ادراک بھی ہو گا کہ موجودہ سیاسی نظام جو مقتدر قوتوں کی بیساکھیوں کے سہارے کھڑا ہے۔ اگر سال 2020 بھی نکال گیا اور جنرل باجوہ تین سال کی مزید توسیع حاصل کرنے کے بعد مخالف کیمپ پر ہاوی آ گئے تو پھر مسلم لیگ نواز میں سے ایک اور قاف لیگ اور پیپلز پارٹی میں  سے ایک اور پیٹریاٹ گروپ نکل آئیں گے اور یہ سویلین چہرے پر مبنی مارشل لا 2023 کے بعد بھی جاری رہے گا۔ مسلم لیگ نواز کو اپنا وجود قائم رکھنے کیلئے جلد ہی مریم نواز کو دوبارہ سے سیاست کے میدان میں اتارنا پڑے گا جبکہ پیپلز پارٹی کیلئے بلاول بھٹو کا جارحانہ طرز سیاست ازحد ضروری ہے۔

مولانا فضل الرحمان کو چونکہ مذہبی ووٹ بنک کی عقیدت اور حمایت حاصل ہے اور مقتدر حلقوں کے باجوہ مخالف کیمپ میں بھی انہیں پسند کیا جاتا ہے۔ اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ فی الوقت وہی ایک اصلی اپوزیشن لیڈر کا کام انجام دیں گے اور اگر ان کے مطالبات نہ تسلیم کیے گئے تو شاید وہ جلد ہی دوبارہ اسلام آباد کی جانب  رخ کر لیں گے۔

جنرل باجوہ کو جن شرائط اور حالات میں مدت ملازمت میں توسیع ملی ہے اس کے بعد اگر مرکزی اپوزیشن جماعتیں پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ نواز تھوڑی سی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس توسیع کو فوج کے ادارے کے وقار کے خلاف قرار دیتے ہوئے نئے انتخابات کے مطالبے کیلئے حکومت اور مقتدر طبقے پر دباؤ بڑھائیں تو 2020 مڈ ٹرم انتخابات کا سال ثابت ہو سکتا ہے۔

بہت سے ذرائع کا یہ ماننا ہے کہ خود عمران خان کو بھی ادراک ہے کہ حالات مڈ ٹرم انتخابات کی جانب گامزن ہیں اور وہ ذہنی طور پر مڈ ٹرم انتخابات کی تیاری بھی کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنا سارا وزن جنرل باجوہ کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ تحریک انصاف کا خیال ہے کہ اگر مقتدر قوتوں میں ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے افراد فیصلہ کن پوزیشنوں پر برقرار رہتے ہیں تو مڈ ٹرم انتخابات ہونے کی صورت میں بھی اس کے اقتدار میں واپس آنے کے امکانات موجود رہتے ہیں۔

اگلے کچھ ماہ یہ طے کر دیں گے کہ ملک مڈٹرم انتخابات کی جانب جاتا ہے یا پھر تحریک انصاف کو پس پشت حمایتیوں کے دم پر 2023 تک اقتدار میں رکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کے حصے الگ کیے جاتے ہیں۔ طاقت کی بساط پر رسہ کشی ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ متنازع توسیع نے اس میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔