پس پردہ اسٹیج پر ایک دم ہلچل سی مچ گئی۔ ملکہ ترنم نور جہاں کو سمجھانے کی کوشش کی جارہی تھی لیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی تھیں۔ منتظمین ہکا بکا تھے۔اِدھر ملکہ ترنم نور جہاں نے حکومت کے اس امدادی شو میں گانے سے بھی انکار کردینے کا اعلان کردیا۔ منتظمین کے تو سمجھیں جیسے ہاتھ پیر پھول گئے۔ منانے سمجھانے کی کوشش میں لگ گئے۔تقریب میں اعلیٰ سرکاری افسران اور عہدیدار شریک تھے جو ملکہ ترنم نور جہاں کی نغمہ سرائی کا بے چینی سے نشستوں پر پہلو بدل بدل کر انتظار کررہے تھے۔ اُدھر منتظمین کے چہروں پر بارہ بجنے لگے تھے اور ہوائیاں اڑنے لگیں۔
انہیں خدشہ تھا کہ جو ملکہ ترنم نورجہاں نے کہا اگراُس پر عمل کردیا تو ان کی کتنی بڑی سبکی ہوجائے گی۔ امدادی شو کے لیے وہ ہزاروں روپے کی مالیت کے ٹکٹس فروخت کرچکے تھے جبکہ ملکہ ترنم نور جہاں نے کارخیر سمجھتے ہوئے اس میں بلامعاوضہ شرکت کی تھی اور خدشہ یہ تھا کہ اگر ملکہ ترنم نور جہاں چلی گئیں تو عوام کو کیسے سنبھالا جائے گا۔
قصہ ہے 1955کا‘ جب خاص طور پر ملکہ ترنم نور جہاں کو اس سرکاری امدادی شو میں مدعو کیا گیا تھا۔ جنہوں نے پروگرام میں شرکت کی حامی بھری تھی اور اِس وقت وہ اسٹیج کے عقب میں تھیں۔ جہاں پرفارمنس سے پہلے انہوں نے سازندوں اور منتظمین کو وہ فہرست تھما دی تھی جن میں ان کے آج کے گانے والے گیت شامل تھے۔ جس کے ایک کلام پر منتظمین کو اعتراض تھااور اسی پر بھونچال آیا ہوا تھا۔ کلام تھا ’مجھ سے پہلی سی محبت‘ اور شاعر تھے فیض احمد فیض۔ جو ان دنوں اسیری میں تھے ۔ منتظمین کو خوف تھا کہ حکومتی عتاب کا شکار فیض احمد فیض کی نظم سن کر سرکاری عہدیدار کا پارہ ہائی نہ ہوجائے اور اسی خدشے کے پیش نظر وہ ملکہ ترنم نور جہاں سے التجائیں کررہے تھے کہ وہ اس کو چھوڑ کر کوئی اور کلام پیش کردیں۔
ادھر ملکہ ترنم نور جہاں کا موقف تھا کہ انہوں نے نظم کی دھن بڑی مشکل اور کئی دنوں کی محنت کے بعد ترتیب دی ہے اور ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اس کلام کے لیے دست بردار ہوجائیں۔ ملکہ ترنم نے دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا کہ اگر گائیں گی تو یہی۔ورنہ ان کی گاڑی تیار ہے گھر واپس جانے کے لیے‘ ایسی صورتحال میں حالات اور صورتحال کو بگڑتے دیکھ کر سینئر حکومتی ذمے داروں نے مداخلت کرتے ہوئے نور جہاں کے سامنے ہتھیار ڈال ہی دیے۔
اب گلوکارہ نے مائیک سنبھالا اور گلوکاری کے پھول کھلانے شروع کیے اور جب انہوں نے فیض احمد فیض کی نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت‘ کی نغمہ سرائی کی تو ہال میں موجود ہر مہمان جیسے جھومنے لگا۔ نشستوں سے کھڑے ہو کر ملکہ ترنم نور جہاں کو داد دی گئی۔ تالیوں کا شور تھا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور پھر یہ کلام تو جیسے ہر محفل میں ملکہ ترنم نور جہاں سے خاص فرمائش پر سنا جانے لگا۔
کچھ عرصے بعد فیض صاحب کو بھی جیل سے رہائی مل گئی۔ ایک رات ملکہ ترنم نور جہاں جب نیند کی وادی میں جانے والی تھیں کہ انہیں بتایا گیا کہ کوئی مہمان اُن سے ملنے آیا ہے۔ ملکہ ترنم نے اونگتی آنکھوں سے گھڑ ی کی جانب دیکھا تو وہ دو بجا رہی تھی۔ ملاقاتی کا جب انہیں بتایا گیا کہ وہ کوئی اور نہیں فیض احمد فیض ہیں تو بنا جوتی اور سر پہ دوپٹے کے ساتھ وہ خواب گاہ سے کم و بیش بھاگتی ہوئی ڈرائنگ روم تک پہنچیں۔
جہاں فیض احمد فیض اُن کے منتظر تھے۔جنہوں نے اپنے آنے کی وجہ یہ بیان کی کہ ملکہ ترنم نور جہاں نے ان کی نظم کو بہترین انداز میں گا کر جیسے الفاظ اور جذبات کے ساتھ انصاف کردیا جس پر وہ ان کے شکر گزار ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ملکہ ترنم نور جہاں کی اُس ہمت کی بھی داد دی‘ جو انہوں نے اس کلام کو گانے کے لیے ہر قسم کے دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ فیض صاحب کا کہنا تھا کہ نور جہاں نے واقعی اس کلام کو گانے کے لیے جس طرح مقابلہ کیا وہ قابل تعریف ہے۔
درحقیقت یہ فیض احمد فیض اورملکہ ترنم نور جہاں کی پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ جس کے بعد گلوکارہ نے عظیم شاعر کا اور بھی کلام گنگنایا۔ نور جہاں کا کہنا تھا کہ فیض صاحب نے ’مجھ سے پہلی سی محبت‘ کو ان کے لیے مخصوص کردیا تھا۔
جبھی وہ مشاعروں میں بھی اس نظم کو نہیں پڑھتے تھے اور جب فرمائش ہوتی تو ان کا جواب یہی ہوتا کہ یہ کلام نور جہاں سے منسوب ہے وہی اسے پڑھیں گی اور گائیں گی۔ 1962 میں اس کلام کو فلم ’ قیدی‘ میں نور جہاں نے پھر پیش کیا جسے شمیم آرا پر فلمایا گیا۔ یوں تو بعد میں کئی اور گلوکاروں نے اس کلام کو گایا لیکن آج بھی فیض کی یہ نظم ، نور جہاں کی آواز میں بہترین شاہکار تصور کی جاتی ہے.