دو دن پہلے میں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر فیض میلہ کے حوالے سے ایک پوسٹ لکھی جس پر شدید ردعمل آیا۔ کچھ احباب اس پوسٹ سے متفق ہوئے، کچھ نے تنقید کی۔ متفق ہونے والوں میں ادیب تھے جو انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کے رکن اور عہدے دار رہ چکے ہیں۔ جن کو اس پوسٹ سے اختلاف تھا وہ بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست ہیں جن کا میں بہت احترام کرتا ہوں۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ چونکہ وہ پوسٹ ایک چھوٹے سے پیراگراف پر مشتمل تھی اس لیے جو بات میں کہنا چاہتا تھا یار لوگ وہ مدعا سمجھ نہیں سکے یا پھر میں ان کو سمجھانے میں ناکام رہا لہٰذا میں نے سوچا کیوں نہ کالم کی صورت میں اپنا مقدمہ بیان کیا جائے۔
پچھلے 17 سال سے لاہور میں صحافت کی ہے، دبستان لاہور کے ادبی حلقوں میں پہچان بھی بنائی ہے۔ تین افسانوں کی کتب شائع ہوئی ہیں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کا تین سال تک سیکرٹری رہا ہوں۔ لاہور پریس کلب کی ادبی کمیٹی کا ایک سال تک رکن رہا ہوں۔ جو کچھ ادب اور صحافت کے میدان میں کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ کبھی کوشش نہیں کی کسی ادارے، کسی شخص کو اپنے ذاتی عناد کے باعث ہدف تنقید بناؤں۔ جب کسی سے اختلاف کیا تو اس کی سوچ اور نظریات سے کیا، کبھی ذاتیات پر نہیں گیا۔
فیض میلے کی بات کرتے ہیں۔ فیض احمد فیض ایک عظیم شاعر تھے۔ وہ رومانی اور مزاحمتی شاعری دونوں میں مہارت رکھتے تھے اور اردو زبان و ادب کے پانچ چھ بڑے شاعروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانی سجاد ظہیر کے ابتدائی ساتھیوں میں ان کا نام آتا ہے۔ جب وطن عزیز پر جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا عروج تھا تب سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد تھی۔ تب صاحب فکر افراد نے پہلی بار ایک عظیم شاعر فیض احمد فیض کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے فیض میلے کا انعقاد کیا جو جنرل ضیاء الحق کے خلاف مزاحمت کا ایک استعارہ بن گیا۔ اس میلے میں فیض احمد فیض کی شاعری پڑھی اور گائی جاتی تھی۔ چونکہ اس میلے کو منعقد کرانے میں بڑا کردار سیاسی جماعتوں کا تھا تو فیض احمد فیض کا صرف سیاسی کردار ہی موضوع بحث رہا تھا۔
فیض احمد فیض ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ شاعر، صحافی، استاد، فوجی افسر، سیاسی رہنما اور ٹریڈ یونین میں بھی متحرک رہے تھے مگر ان کی شخصیت کا سب سے توانا و مضبوط پہلو شاعر ہی کا ہے۔ دنیا بھر میں ان کی وجہ شہرت بطور شاعر کی ہے۔ یہی غلطی ہمارے بائیں بازو کے دوست کر جاتے ہیں۔ انہوں نے فیض احمد فیض کی شخصیت کا ایک رنگ بطور سیاسی رہنما تو اٹھا لیا مگر ان کی شخصیت کے سب سے توانا پہلو بطور شاعر کو پس پشت ڈال دیا۔
فیض میلہ کو جب انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور نے کرایا تو اس میں تین سیشن رکھے تھے۔ پہلے مذاکرہ تھا جہاں ملک بھر سے آئے ادیبوں اور دانشوروں نے فیض کی شاعری اور نثر پر مقالات پڑھے۔ تقریب میں موجود شرکا کے علم میں اضافہ کیا۔ پھر مشاعرہ ہوا جہاں صف اول کے شعرا کرام نے کلام پڑھا۔ آخر میں محفل موسیقی ہوئی۔ گلوکاروں نے صرف کلام فیض گایا۔ اس پروگرام کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور شخصیت پرستی کے بوجھ تلے دب کر اپنی نظریاتی اساس کھو بیٹھی۔ یوں فیض میلہ دوبارہ سیاسی جماعتوں اور این جی اوز کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ انہوں نے فیض احمد فیض کے ساتھ وہی کیا جو علامہ اقبال کے ساتھ ریاست اور دائیں بازو والے اکابرین نے کیا۔
یہ بات طے ہے جب بھی کسی عظیم شاعر کو مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو وہ روح سے خالی ہو جاتا ہے۔ فیض احمد فیض ایک ادیب اور شاعر تھے۔ جس طرح ان کو انجمن ترقی پسند مصنفین یا حلقہ ارباب ذوق سمجھ سکتا ہے، کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔ توقع ہے کہ اب بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دوست اور کامریڈ میرا مؤقف سمجھ گئے ہوں گے۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔