فلم ساز وویک رنجن اگنی ہوتری کی پاکستان سے نفرت اور مسلم مخالف فلم ’ دی کشمیر فائلز‘ میں پاکستان کے شہرہ آفاق انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی لازوال نظم ’ ہم دیکھیں گے‘ کو شامل کرنے پر پاکستانی شائقین نے بھارتی فلم ساز پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
’ دی کشمیر فائلز‘ کو کچھ دن قبل ریلیز کیا گیا تھا، جس کی کہانی 1990 میں مقبوضہ کشمیر میں کی گئی نسل کشی پر مبنی ہے لیکن حیران کن طور پر فلم میں مسلمانوں کے بجائے پنڈتوں کی نسل کشی کو دکھایا گیا ہے اور مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
’د کشمیر فائلز‘ کی کہانی اور ہدایات وویک رنجن نے دی ہیں جب کہ وہ فلم کے شریک پروڈیوسر بھی ہیں۔
وویک رنجن کی اہلیہ اداکارہ پلوی جوشی نے بھی فلم میں اہم کردار ادا کیا ہے جنہیں ایک طرح سے پاکستانی مہرے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔
فلم کو ریلیز کیے جانے کے بعد جہاں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت دیکھی گئی، وہیں دنیا بھر میں فلم پر حقائق کو غلط پیش کرنے پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
https://youtu.be/C8QYVwX0M6g
فلم کو بھارتی سینماؤں میں دکھائے جاتے وقت بھارتی مسلمانوں کے غدار ہونے اور انہیں ملک سے نکالنے کے نعرے بھی سنائی دیے جب کہ سوشل میڈیا پر بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پوسٹس دیکھی گئیں۔
حیران کن طور پروپیگنڈا کے لیے بنائی گئی پاکستان اور مسلمان مخالف فلم میں فیض احمد فیض کی جانب سے ظلم کے خلاف لکھی گئی نظم ’ ہم دیکھیں گے‘ کو بھی شامل کرلیا گیا۔
https://twitter.com/ZeeMusicCompany/status/1504011509562679298
’ ہم دیکھیں گے‘ کو فلم میں مقبوضہ کشمیر میں خانہ جنگی اور تشدد کے دوران انتہاپسند مسلمانوں کے کردار ادا کرنے والے اداکاروں پر فلمایا گیا ہے۔
https://twitter.com/UdaySRana/status/1505001205361258498
’ ہم دیکھیں گے‘ کو فلم میں دہشت گرد اور کشمیری ہندو پنڈتوں کے قتل میں ملوث افراد یا وہاں پر قتل عام کی سازش تیار کرنے والے اداکاروں پر فلمایا گیا ہے، جس سے پاکستانی شائقین نالاں دکھائی دیے۔
https://twitter.com/MAizzanMalik/status/1505045842021036032
’ ہم دیکھیں گے‘ کی مختصر ویڈیو کلپ کو ’زی میوزک‘ کی جانب سے ٹوئٹر پر شیئر کیا گیا تو لوگوں نے اس پر برہمی کا اظہار کیا اور لکھا کہ حیران کن طور پر ظلم کے خلاف لکھی شاعری کو ظلم کو چھپانے کے لیے بنائی گئی پروپیگنڈا فلم میں شامل کیا گیا ہے۔
https://twitter.com/MMusingsbym/status/1504927008559706118
نہ صرف پاکستانی بلکہ بھارتی لوگ بھی اس پر حیران دکھائی دیے کہ ظلم کے خلاف لکھی گئی فیض کی شاعری کو نیو نازی ازم پروپیگنڈا کے لیے بنائی گئی فلم میں شامل کرلیا گیا۔
https://twitter.com/Rahimbuxsagar/status/1505116725037223936
بعض لوگوں نے بھارتی فلم ساز کی بے وقوفی پر بھی طنز کیا کہ انہوں نے نظم کی شاعری کو سمجھے بغیر ہی اپنی فلم میں شامل کرلیا، لوگوں نے انہیں بتایا کہ دراصل فیض نے کشمیر میں ہونے والے مظالم جیسے مظالم کے خلاف ہی شاعری لکھی تھی۔
https://twitter.com/Fatmounh/status/1505101286265417730
کچھ لوگوں نے لکھا کہ فیض احمد فیض نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان کی ظلم کے خلاف لکھی گئی نظم ایک دن مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے خلاف ہی استعمال ہوگی۔
کچھ لوگوں نے فلم کی ٹیم پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ انہوں نے فیض احمد فیض کی شاعری کو اجازت کے بغیر چوری کرکے فلم میں شامل کیا ہے۔
https://twitter.com/shanzayyyyyyyy/status/1505071071120470016
تاہم ایسے لوگوں کو جواب دیتے ہوئے فلم ساز وویک رنجن اگنی ہوتری نے واضح کیا کہ انہوں نے ’ ہم دیکھیں گے‘ کی شاعری کو چوری نہیں کیا بلکہ انہوں نے آفیشلی طور پر ’فیض محل لاہور‘ سے اس نظم کو استعمال کرنے کی اجازت حاصل کی۔
https://twitter.com/vivekagnihotri/status/1505076370690351106
فلم کی ٹیم نے گانے کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے اس میں شاعر کا نام فیض احمد فیض بھی درج کیا ہے، تاہم یوٹیوب پر ان کا نام غلط لکھا گیا ہے اور انہیں فیض احمد فیض کے بجائے ’فیض انور فیض‘ لکھا گیا ہے۔