Get Alerts

بالی ووڈ اور پاکستان کی فلم انڈسٹری: پاکستانی فلمی صنعت کے عروج و زوال کی کہانی

بالی ووڈ اور پاکستان کی فلم انڈسٹری: پاکستانی فلمی صنعت کے عروج و زوال کی کہانی
متحدہ ہندوستان میں فلم سازی کے 5 بڑے مرکز تھے ۔ممبئی ،چنائے،حیدر آباد دکن،کولکتہ ، اور لاہور ۔ 1947 کے بعد چار مرکز بھارت میں رہ گئے اور ایک فلمی مرکز لاہور ہمارے پاس آگیا بھارت میں فملسازی کا عمل بھرپور طریقے سے چلتا رہا۔  پندی، تامل، مہالم،تلگو،کنڈا، پنجابی، مراٹھی، بنگالی، بھوجپوری سمت دیگر زبانوں میں فلمیں بنتی رہی اب بھی سالانہ 600 کے قریب فلمیں بن رہی ہیں بھارت میں ممبئی، چنائے،کولکتہ، بنگلور ، حیدرآباد دکن، چندی گڑھ جیسے شہروں میں سینکڑوں نگار خانے  ہیں جہاں فلموں ڈراموں اور ٹی وی شوز کی عکسبندی ہر وقت ہوتی رہتی ہے۔ بھارت کی مرکزی حکومت ہو یا ریاستوں کی حکومتیں ہوں فملسازی کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتی ہیں ۔ سرکاری سطح پر ہمیشہ نیشنل ایورڈ دیا جاتا ہے اس کے علاہ فلم فیئر،سکرین ، ائفا، سٹار ڈسٹ ، زی سنے جیسی غیر سرکاری تنظیموں کے ایواڈز دیے جاتے ہیں۔

بھارت میں تین بھاشاوں میں عالمی سطح کی فلمیں بن رہی ہیں جن میں ہندی ، تامل اور تیلگو بھاشا کی فلمیں ہیں۔ جو سالانہ 300 کے قریب ہیں۔ ان بھاشوں میں اے کلاس کی فلموں کا بجٹ 100 سے 150 کروڑ تک ہوتا ہے جسے سلمان خان کی دبنگ 3 اور اجے دیوگن کی تانا جی ہیں۔ تامل فلم روبوٹ 2 جس میں رجنی کانت اور اکشے کمار شامل تھے اسکا بجٹ 160 کروڑ تک تھا اور تیلگو بھاشا کی فلم  ساہو کا بجٹ 150 کروڑ تھا۔  یہ فلم ہندی میں بھی بنی تھی جس کے  پربھاس ہیرو تھے۔ ان تمام فلموں کو بھارت سمیت دنیا بھر میں 6000 کے لگ بھگ سینما سکرین میں ریلیز کیا جاتا ہے ۔

عامر خان کی فلم دنگل نے پوری دنیا سے 2 ہزار کروڑ کمائے تھے ۔باہوبلی 2 نے 1600 کروڈ کمائے تھے ۔ اے کلاس سپر اسٹار اکشے کمار سلمان خان اجے دیوگن عامر خان شاہ رخ خان ریتھک روشن رنبیر کپور رن ویر سنگھ ہر فلم کا معاوضہ 30 سے 55 کروڑ تک لیتے ہیں۔  ۔اکشے کمار اور عامر خان اکثر  فلموں کے معاوضے کی بحائے منافع میں حصہ لے لیتے ہیں جو معاوضہ سے زیادہ ہو جاتاہے ۔ بھارت میں سماجی اور تاریخی موضوعات پر بننے والی فلموں کے ٹیکس معاف ہو جاتے ہیں فلمساز ہر صورت منافع میں رہتا ہے۔  بھارتی فلمساز کے پاس فلم بنا کر منافع کمانے کے 4 طریقے ہیں۔ سینما گھروں کے لیے فلم کے رایٹس فروخت کرنا۔ آن لائن فلم دیکھنے کے لیے ڈیجیٹل رائٹس  ٹی وی چینلز کے سٹیلائٹ رائٹس اور میوزک رائٹس فروخت کرنا۔ ان سب کے ذریعے کوئی بھی اے کلاس فلم 80 سے 100 کروڑ کی ریکوری ریلیز سے پہلے ہی کما لیتی ہے۔ بی کلاس فلم 40 سے 50 کروڈ کما لیتی ہے ریلیز ہونے کے بعد ڈسٹریبیوٹر اور سینما مالکان کے ساتھ ساتھ فلمساز کا بھی حصہ ہوتا ہے ہوں ہر قابل فلمساز ہر سال 2سے 3 فلمیں بنا کر اربوں روپے کماتا ہے۔ چونکہ فلم انڈسٹری کا درجہ حاصل ہے لہٰذہ فلم ٹریڈ سے وابستہ تمام لوگ چاہے وہ سٹوڈیو اونر کے ملازمین سینما گھروں کے مالکان کے ملازمین ہوں یا فلمساز کے ذاتی ملازم ہوں سب اچھے پیسے کمانے لیتے ہیں۔

 

بھارت میں فلمسازی کا  ماضی حال اور مستقبل شاندار ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں فلمسازی کو وہ مقام اور عروج نہیں ملا جو بھارت میں ملا ہے  ایک بڑا فلمی مرکز لاہور تھا بعد میں کراچی اور پشاور میں فلمیں بنی ۔ تین زبانوں اردو پنجابی اور پشتو  میں مسلسل فلمیں بنتی رہی کراچی سمندر کنارے آباد جدید شہر ہے جہاں فلموں کے لئے سرمایہ بآسانی مل جاتا ہے مگر ماضی میں پنجابی زبان پر فلمیں بنانے کی وجہ سے اس شہر کو نظر انداز کیا گیا ایک وقت تھا کراچی میں 100 سینما گھر تھے جو اردو فلموں کی عدم دستیابی کے باعث ختم ہو گئے۔  لاہور جو روایتی فلمی مرکز تھا وہاں لچر بے مقصد اور گھٹیا قسم کی پنجابی فلموں نے اسے بھی تباہ کر دیا۔ 60 کے قریب سینما گھر تھے جو اب 20 تک رہ گئے ہیں۔

لاہور کے نگار خانے ختم ہو چکے ہیں ۔پاکستان میں حکومتی سطح پر کبھی فلمسازی کی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی۔ کسی سیاسی جماعت نے اپنے منشور میں فلم سازی کے حوالے سے کوئی  نکتہ نہیں رکھا۔ 73 سالوں میں صرف ایک وحید مراد تھا جو سپر اسٹار بنا دوسری طرف بھارت میں کندن لال سہگل سے لے کر رن ویر سنگھ تک ہر دہائی میں 2 سے 3 سپر اسٹار پیدا ہوئے ۔ پاکستان میں فلمسازی کو مذہبی طبقہ نے ہمیشہ نقصان پہنچاہا سرحد پار فنکار کو اوتار کہا گیا اور ادھر میراثی ۔ وہاں سرکاری سطح پر پونا میں فلم اکیڈمی بنائی گئی۔  ادھر کراچی کے پڑھے لکھے لوگوں نے ازخود پچھلے 10 سالوں سے کراچی کو ایک نئے فلمی مرکز کے طور پر اٹھا یا ہے۔ سالانہ 30 کے قریب فلمیں بن رہی ہیں جو پاکستان کی سنیما انڈسٹری کے لہے بہت کم ہیں۔ سینما گھروں کو ہر جمعہ ایک نئی فلم چاہیے پاکستان کی دم توڑتی سینما انڈسٹری صرف حکومتی سرپرستی اور بھارتی فلموں کی نمائش سے ہی بچ سکتی ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔