متنازعہ علاقہ، گندم سبسڈی اور گلگت بلتستان کا مالیاتی بحران

گلگت بلتستان میں حالیہ دنوں حکومت کی جانب سے گندم مہنگی کرنے اور ٹارگٹڈ سبسڈی متعارف کرانے کے اعلان کے بعد یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ متنازعہ علاقوں میں سبسڈی دینا بنیادی حق ہے اور یہ بات دہرائی جا رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح 24 اشیا پر سبسڈی دی جا رہی ہے، اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی سبسڈی متعارف کرائی جائے۔

متنازعہ علاقہ، گندم سبسڈی اور گلگت بلتستان کا مالیاتی بحران

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں فی گھرانہ 4 کلوگرام آٹا مفت دیا جاتا ہے اور یہ کلی طور پر ٹارگٹڈ سبسڈی ہے۔ دلچسپ طور پر اس ٹارگٹڈ سبسڈی سے مستفید ہونے والے افراد کی تعداد 57 لاکھ ہے۔ اس ٹارگٹڈ سبسڈی کے لئے وہاں پرائم منسٹر فوڈ سپلیمنٹیشن سکیم کا اجرا کیا ہے۔ حالیہ دنوں اس میں ترمیم کر کے اضافی طور پر 10 کلوگرام راشن رعایتی نرخوں پر دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس راشن سے مراد چاول ہے اور یہ رعایت 9 روپے فی کلوگرام دی جا رہی ہے جو وہاں کے حساب کتاب میں 25 روپے فی کلوگرام پڑتی ہے جس کا سالانہ خرچ حکومت کو 2 کروڑ روپے پڑے گا۔ اس کے علاوہ بجلی کے نرخوں پر قابو پانے کے لیے سمارٹ میٹر سسٹم بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ 

دوسری جانب لداخ ہائی کورٹ نے ایک پٹیشن پر حکومت کو حکم دیا ہے کہ سیاحت کی بحالی اور ہوٹل انڈسٹری کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے 2003 کی پالیسی بحال کی جائے۔ اس پالیسی کے تحت فی کمرہ تیار کرنے کے لئے بینکس 50 ہزار قرضہ دیں گے اور اس رقم پر شرح سود صرف 4 فیصد ہو گا۔ اس پالیسی سے فائیو سٹار ہوٹلوں کے علاوہ سبھی مستفید ہو سکیں گے۔

جموں کشمیر میں ٹرانسپورٹ پر سبسڈی کا ایک الگ نوٹیفکیشن موجود ہے تاہم اس کا اطلاق پرانی کھٹارا بسوں کو تبدیل کر کے نئی بسیں اور ٹرانسپورٹ ذرائع متعارف کرانے تک محدود ہے۔

گلگت بلتستان میں حالیہ دنوں حکومت کی جانب سے گندم مہنگی کرنے اور ٹارگٹڈ سبسڈی متعارف کرانے کے اعلان کے بعد یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ متنازعہ علاقوں میں سبسڈی دینا بنیادی حق ہے اور یہ بات دہرائی جا رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح 24 اشیا پر سبسڈی دی جا رہی ہے، اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی سبسڈی متعارف کرائی جائے۔ بھارتی کشمیر کے کل بجٹ کا 31 فیصد حصہ خود مقامی حکومت پیدا کرتی ہے۔

گلگت بلتستان کا موازنہ مقبوضہ کشمیر یا بھارتی زیر انتظام کشمیر سے کیا جائے اور متنازعہ علاقوں کو ملنے والی سبسڈی کی بات کی جائے تو عقلی طور پر بات تسلیم کرنے کے قابل ہے تاہم موازنہ اور تقسیم اس قدر سادہ بھی نہیں ہے۔ ایسے بیانیے قائم کرنے اور دعوؤں سے قبل پاکستان کی معیشت اور بھارتی معیشت کو دیکھنا ناگزیر ہے۔ پاکستان کی کرنسی اور وہاں کی کرنسی کا جائزہ لئے بغیر بھی یہ موضوع ادھورا ہے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ گلگت بلتستان کو مرکز نے شروع دن سے اس طرح رکھا ہی نہیں جس طرح ایک متنازعہ علاقے کو رکھا جاتا ہے۔ آج بھی پوری ریاستی پالیسی کا محور محض بھارتی کشمیر میں حریت پسندوں کی جدوجہد ہے۔ عالمی فورمز پر گلگت بلتستان کو پیش کرنے کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ ان سیاسی حقوق کے موضوع سے ہٹ کر دیکھا جائے تو بھی صورت حال بالکل ایک جیسی بلکہ قدرے گھمبیر نظر آتی ہے۔

گلگت بلتستان میں گندم پر سبسڈی پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کا خودساختہ بیانیہ نظر آتا ہے تاکہ بھٹو کو زندہ رکھا جا سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بطور وزیر اعظم جن اصلاحات کا آغاز کیا تھا ان میں ٹرانسپورٹ پر سبسڈی تھی جس میں پٹرولیم مصنوعات اور گندم وغیرہ شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پٹرول کی قیمت گلگت بلتستان میں ملک کے بہت سارے علاقوں سے بہتر اور مرکز کے برابر ہے۔ گندم کی بات کی جائے تو اس کا کُھرا ٹرانسپورٹ کی سبسڈی کے علاوہ صدر پرویز مشرف تک جا نکلتا ہے جس کی وجوہات تادم تحریر نامعلوم ہیں۔

2009 میں پیپلز پارٹی نے گلگت بلتستان میں حکومت سنبھالی تو روزانہ خبریں لگتی تھیں کہ گلگت بلتستان پاسکو کا مقروض ہو گیا اور مزید گندم کی فراہمی روک دی۔ 2014 میں جب حکومت چھوڑ کر چلے گئے تو پاسکو کی یہ رقم 32 ارب سے تجاوز کر گئی تھی اور گلگت بلتستان میں گندم کا غدر مچا ہوا تھا۔

 2014میں گلگت بلتستان انتخابات سے قبل مرکزی بجٹ پیش ہونا تھا جس میں قمر الزمان کائرہ نے مبینہ طور پر ایک چینل پر یہ خبر بریک کرائی تھی کہ گندم سبسڈی ختم کر دی گئی ہے جس کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو خود اس موضوع پر پریس کانفرنس کے ذریعے وضاحت دینی پڑی تھی اور پہلی مرتبہ گندم سبسڈی کے لیے 6 ارب روپے فکس کر دیے گئے۔

یہاں سے اس سبسڈی کا نیا رخ شروع ہوتا ہے۔ پاکستان میں گندم کی قلت پیدا ہونا شروع ہوئی اور قیمتیں بڑھنی شروع ہوئیں۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ جس رفتار سے گندم کی قیمت بڑھ رہی ہے اسی رفتار سے گندم سبسڈی کی مد میں مختص شدہ رقم بھی بڑھ جاتی لیکن رقم فکس کر دی گئی اور قیمت بڑھتی چلی گئی۔ تحریک انصاف نے 2 ارب کا اضافہ کر دیا اور مقامی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کو ملا کر 10 ارب کے لگ بھگ کل رقم بن گئی۔

اس وقت پنجاب میں فی کلوگرام گندم کی قیمت 139 روپے ہے جسے گلگت بلتستان پہنچانے تک کم از کم 155 روپے بنتی ہے جبکہ یوکرین یا کسی دوسرے ملک کی گندم فراہم کرنے کی صورت میں یہ رقم مزید بڑھ جاتی ہے۔ یوں درکار رقم بڑھ کر 23 ارب کے قریب ہے۔ اس فاصلے کی وجہ سے ابھی لوگوں کو صرف 20 کلوگرام آٹا دیا جا رہا ہے جسے تقسیم کیا جائے تو فی فرد بمشکل اڑھائی کلو آٹا ماہانہ نصیب ہوتا ہے، وہ بھی لائنوں میں لگ کر۔

گندم کی قیمت میں اضافے کے باعث جو خسارہ سامنے آ رہا ہے وہ گلگت بلتستان کے ترقیاتی بجٹ کے برابر ہے، اسے کسی ایمنسٹی کے تحت حل کرنا ناممکن ہے۔

ادھر محکمانہ سطح پر بے ضابطگیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ 800 روپے کی 40 کلو کی بوری کسی طرح سے جی بی حدود سے باہر نکالی جائے تو رقم بڑھ کر 4500 ہو جاتی ہے۔ یوں ایک بوری پر 3700 کم از کم منافع کا لالچ محکمہ کو ملی بھگت پر مجبور کرتا ہے جبکہ اندرون شہر بھی اس کی بلیک مارکیٹنگ رکنے کا نام نہیں لیتی ہے۔

گلگت بلتستان حکومت کو اپنے وزن کا خود علم ہونا چاہئیے کہ کیا وہ اس فیصلے کو برداشت کر سکتی ہے؟ ماضی میں عوامی ردعمل کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ٹارگٹڈ سبسڈی اور قیمتوں میں یکدم اضافہ دونوں ایک ساتھ ممکن نہیں تھے۔

گلگت بلتستان میں ٹارگٹڈ سبسڈی اب تک کا سب سے آسان اور قابل عمل فارمولا نظر آیا ہے جس سے قحط پر قابو پایا جا سکے۔

بینظیر انکم سروے پروگرام کے مطابق جی بی میں 30 فیصد گھرانے ایسے ہیں جن کو امرا کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے جبکہ 25 فیصد افراد بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ دنیا بھر میں نظام بھی اسی طرح چلتا ہے کہ امیر اور غریب کے درمیان فرق کم کرنے کے لئے اس طرح کے فیصلے کئے جاتے ہیں اور کم آمدن والوں کو رعایت دی جاتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں علاقے کی کم آمدن کی صورتحال اور دور افتادہ علاقہ ہونے کے باعث ہی یہ فیصلہ لیا گیا ہو۔

اس ایک زاویہ کی بنیاد سبسڈی کا نظام عارضی طور پر بہتر کیا جا سکتا ہے اور قیمتوں میں بتدریج اضافہ واحد حل ہے۔

حکومت اس ضمن میں وفاق کے ساتھ منطقی پالیسی کے تحت بات کرے کہ گندم سبسڈی کی رقم فکس کرنا کوئی حل نہیں ہے۔ اس گندم کے معاملے سمیت دیگر تمام مالیاتی امور کو جب تک واضح انداز میں طے نہیں کریں گے معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔

خالد خورشید حکومت میں مقامی محصولات کا نظام بہتر کرنے کے لئے اتھارٹی قائم کی گئی تھی۔ موجودہ حکومت نے اب تک اس بابت لب کشائی تک نہیں کی ہے۔ جب تک مقامی طور پر آمدن کا نظام وضع نہیں ہوگا اور مرکز کے ساتھ تمام امور پر فارمولا طے نہیں ہوگا تو سردیوں میں اجتماعات لگتے رہیں گے اور احتجاجی سلسلے جاری رہیں گے۔ یہ گلگت بلتستان حکومت کا بڑا امتحان ہے۔

فہیم اختر کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور وہ صحافت کے شعبے کے ساتھ منسلک ہیں۔