گلگت بلتستان میں گندم سبسڈی ختم کرنے اور گندم کی قیمت میں اضافے کے خلاف احتجاجی مظاہرے پھیلنے لگے ہیں۔ حکومت کی طرف سے گندم کی قیمت میں اضافے کے خلاف سکردو میں 33 روز سے احتجاج جاری ہے جبکہ کھرمنگ، گنگچھے، شگر اور روندو میں بھی روزانہ احتجاج جاری ہے۔ جمعہ اور ہفتہ کے روز پورے گلگت بلتستان میں پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی جس کے بعد نظام زندگی منجمد ہونے سے عوام شدید پریشان ہیں۔
گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع سے قافلے گلگت پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ یسین، غذر اور ہنزہ سے ہزاروں گاڑیوں پر مشتمل قافلے گلگت پہنچ گئے ہیں جبکہ نگر کا قافلہ کل علی الصبح گلگت پہنچے گا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
دوسری جانب حکومت کی طرف سے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کی کئی نشستیں ہو چکی ہیں لیکن دھرنا قائدین بضد ہیں کہ گندم کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ واپس لیا جائے اور گلگت بلتستان ریونیو ایکٹ بھی ختم کیا جائے۔
انجمن تاجران سکردو کے صدر غلام حسین اطہر کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت یہاں کے غریب عوام کو دہائیوں سے دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے لگی ہے۔ گندم پر ملنے والی سبسڈی یہاں کے عوام کا بنیادی حق ہے، اسے ختم کر کے گندم کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے جو ہمیں ہرگز قبول نہیں ہے۔
معاون خصوصی اطلاعات ایمان شاہ کے مطابق حکومت مظاہرین سے بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور کئی نشستیں ہوئی ہیں۔ ہم مظاہرین کے ساتھ آگے بھی بات چیت کے خواہاں ہیں۔ ان کے مطابق گندم کی قیمتوں میں کمی ممکن نہیں ہے۔
ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سربراہ آغا علی رضوی نے بھی سکردو سے گلگت کی طرف جانے کا اعلان کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔