سینئر صحافی رضا رومی نے کہا ہے کہ نواز شریف کے روابط مقتدر حلقوں سے بحال ہو چکے ہیں۔ ان روابط کی بہت سے ذرائع بالواسطہ یا بلا واسطہ تصدیق کر چکے ہیں۔ جتنے روابط بڑھ رہے ہیں، اتنا ہی حکومتی حلقوں میں خوف وہراس بڑھ رہا ہے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ کے بعد حکومت کی جانب سے جو بیان بازی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے، وہ توجہ ہٹائو مہم بھی ہو سکتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں ساری توجہ ان کی نواز شریف کی میڈیکل کنڈیشن پر چلی جائے اور ایک بار پھر ان کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ ان کا کام چلتا رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے جو بیان بازی کی جا رہی ہے، اس کے پیچھے کچھ اور نہیں بس عدم تحفظ اور خوف ہے کیونکہ موسم تبدیل ہو چکا ہے۔ سیاسی موسم بھانپتے ہوئے حکومت نے بھی یہ فیصلہ ہے کہ وہ اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف کیخلاف اپنی حکمت عملی کو بڑھائے گی۔
ایوان بالا میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے رضا رومی کا کہنا تھا کہ اس طرح کی باتیں ان کے منصب کے شایان شان نہیں، ان کو یہ سب چیزیں زیب نہیں دیتیں۔ تاہم یوسف رضا گیلانی نے بھی سٹیٹ بینک ترمیمی بل کے موقع پر غائب ہو کر اچھا نہیں کیا۔ اس کی وجہ سے ہی اپوزیشن کی اکثریت اقلیت میں بدل گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ انہوں نے یہ اقدام خود اٹھایا، پارٹی کی جانب سے انھیں ایسا کرنے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں یا کوئی بیک ڈور ڈیل ہوئی ہے۔ سب لوگ سٹیٹ بینک ترمیمی بل کو ریاست کا مفاد قرار دے رہے ہیں۔ لیکن پارلیمنٹ بھی تو اسی ریاست کا ہی ایک اہم حصہ ہے۔ جب عوام کے نمائندہ ایک سابق وزیراعظم ایوان بالا میں انتہائی اہم بل کے موقع پر نہیں آئیں گے تو ان پر تنقید تو ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کے سامنے ان تمام سیاستدانوں کی قلعی کھل گئی ہے۔ عوام کو پتا چل چکا کہ پاکستان ایک بہت بڑا حمام ہے، اس میں سارے کردار ننگے ہیں۔ یہ سب ڈینگیں مارتے ہیں کہ ہم چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کو بدل کر دکھائیں گے، ہم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لے آئیں گے لیکن آج تک ایسا نہیں کر سکے۔ اگر کوئی قوت پارلیمنٹ کو ربڑ سٹیمپ بنا رہی ہے تو وہ اکیلی نہیں یہ سیاستدان بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔
پروگرام میں شریک عنبر رحیم شمسی کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی میڈیکل رپورٹ سے یہ چیز واضح ہو جاتی ہے کہ نواز شریف پاکستان واپس نہیں آئیں گے، اس بارے میں جو بھی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں وہ اب ختم ہو چکی ہیں۔
عنبر رحیم شمسی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت بارہا کوشش کر چکی ہے کہ نواز شریف کو واپس لایا جائے لیکن انھیں لاکھ کوششوں کے باوجود کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ سابق مشیر داخلہ شہزاد اکبر کو بھی اسی لئے اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جو بیان دیا، وہ قائد حزب اختلاف گیلانی صاحب کے ساتھ پرانی رنجش کا اظہار ہے۔ اسے ملتان کی سیاست اور اگلے الیکشن کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر فیاض شال کی شہریت بارے میں کوئی منفی چیز سامنے نہیں آئی۔ وہ نواز شریف کا علاج معالجہ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے میڈیکل رپورٹ میں اس بارے میں واضح کیا ہے۔ تاہم حکومت کو یہ رپورٹ جعلی لگتی ہے۔ شبلی فراز نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پاکستانی ڈاکٹرز یہی کام کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بیان جاری کرکے تمام ڈاکٹروں کی تضحیک کی ہے۔ یہ انتہائی شرمناک ہے، انھیں اس پر معافی مانگنی چاہیے۔