کاروکاری: ایک بھیانک رسم

چادر اور چاردیواری جیسے اخلاقی رویوں کا گلا دبا کر بے جا رسومات کہ بھینٹ چڑھانا اس ملک کی خاص روایات میں سے ایک ہے۔ اسلامی ریاست جس میں عورت کو مرد سے اونچا درجہ حاصل ہے، اسے ہر دن بدکرداری کا پھندا پہنا کر مرد کی جوتی تلے دبا دیا جاتا ہے۔

مغرب سے لے کر مشرق تک خاص طور پر اسلامی ممالک میں بڑھتی ہوئی عورتوں کی تضحیک نے اخلاقیات کو دبوچ کر رکھ دیا ہے۔ غیرت کہ نام پر مارنا ایک وحشیانہ رسم ہے جس میں عورت کو بداخلاق اور بدچلن قرار دے کر اپنے ہی خاندان کہ افراد عبرت کا نشان بنا کر مار دیتے ہیں تاکہ خاندان کی عزت پامال نہ ہو۔

ایک ایسا معاشرہ جہاں پسند کی شادی کو باعثِ ذلت سمجھا جاتا ہے اور اس جرم کی تلافی صرف خون سے کی جاتی ہے۔ جب اسلام عورت کو اپنی پسند سے شادی کا اختیار دیتا ہے تو پھر ایسی سوچ کا مظاہرہ کرنا جہالت ہے۔

کاروکاری ایک سماجی برائی ہے جس کی جڑ زیادہ تر قبائلی علاقوں پر مبنی ہے۔ یہ ظالمانہ رسم دہائیوں سے چلتی آ رہی ہے۔ اگر ہم سندھ کی بات کریں تو سندھ میں اس کام کا ٹھیکہ بڑے بڑے جاگیرداروں نے لے رکھا ہے۔ افسوس کے ساتھ سندھ میں کاروکاری کو بھی معتبر رسم مانا جاتا ہے۔ لوگ اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو مارتے ہیں اور آزاد کر دیے جاتے ہیں کیونکہ غیرت کے نام پر قتل جرم نہیں بلکہ ایک رسم ہے۔ یہ ظالمانہ رسم پوری کرنے والا قاتل نہیں غیرت مند کہلاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک سال کے اندر ایک ہزار تک کاروکاری کے کیسز سامنے آتے ہیں۔ 2018 کے پہلے مہینوں میں لاڑکانہ میں سب سے زیادہ کاروکاری کے کیسز درج کیے گئے، جن میں 46 عورتیں اور 17 مردوں کو مارا گیا۔ اگر ان اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو زیادہ تر متاثرین عورتیں ہیں۔ مرد کے معاملے میں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ 'لڑکا ہے سب چلتا ہے۔'

سوشل میڈیا پر مشہور ہونے والی پاکستانی شخصیت قندیل بلوچ ہو یا پشتو موسیقار ثنا ہو، میرے گاؤں (بگی) کا نوجوان جوڑا ہو یا دادو کی گُل سما ہو، کار کاری نے نسلیں برباد کرنے اور ذہنوں کو غلیظ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

ضرورت ہے تو مؤثر اور سخت قوانین کی تاکہ انصاف کو یقینی بنایا جائے۔ صرف ثقافتوں کو اس ظالمانہ رجحان کا الزام دینا ناقابلِ قبول ہوگا۔ بڑھتے ہوئے کاروکاری کہ واقعات کو روکنا ہمارا بھی فرض ہے، ہمیں اپنی عورتوں کا تحفظ خود کرنا ہوگا اور نام نہاد محافظوں کی پہنچ سے دور رکھنا ہو گا۔ ایسے کیسز کے لیے خاص قانون اور ادارے بنانے ہوں گے جو صرف مجرموں کو سزائیں نہیں بلکہ اس ملک کے ہر باشندے کو تحفظ فراہم کریں۔

اگر کاروکاری کا منه بند نہ ہوا تو ہماری زندگیوں کی نہیں انسانیت کی موت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہو جائے گی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت جلد ہم جانوروں سے بھی بدتر ہو جائیں۔