رانا ثنا اللہ کی گرفتاری اور دم توڑتی فسطائیت

رانا ثنا اللہ کی گرفتاری اور دم توڑتی فسطائیت
مسلم لیگ نواز پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو بھی آخر کار گرفتار کر لیا گیا۔ حیران کن طور پر رانا ثنا اللہ کو منشیات رکھنے کے جرم میں اینٹی نارکوٹکس فورس کے ذریعے گرفتار کیا گیا۔ چونکہ رانا ثنا اللہ نے ہمیشہ عمران خان پر منشیات استعمال کرنے کا الزام لگایا اس لئے شاید یہ ضروری تھا کہ رانا ثنا اللہ کو سبق سکھانے کی خاطر اسے اسی الزام کے تحت گرفتار کیا جائے جو وہ عمران خان پر عائد کرتا تھا۔



یہ بھی پڑھیے: رانا ثنااللہ کو اے این ایف نے اپنی تحویل میں لے لیا







ایک جمہوری سیاسی جماعت یا جمہوری حکومت خود اپنے ہی ایوان کے رکن کی یوں تذلیل کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتی لیکن چونکہ تحریک انصاف مسلم لیگ ق کی مانند "کنگز پارٹی" ہے اس لئے اس جماعت کا جمہوریت اور جمہوری رویوں سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ ایک ایسا رہنما جو اپنا سارا وقت اور توانائیاں محض اپوزیشن کے اراکین سے ذاتی عناد اور سیاسی انتقام لینے میں صرف کرتا ہو، اس مسلط کردہ رہنما سے ایسی حرکتوں کے علاوہ اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے؟



ہمارے یہاں "فرشتوں" نے سیاسی اور معاشرتی عمل پر مسلط ہو کر جو قحط الرجال پیدا کیا ہے اس کے نتیجے میں اب عمران خان جیسے بونے ہی پیدا ہو سکتے ہیں جنہیں زبردستی عوام پر مسلط کیا جاتا ہے۔ نجانے عمران خان اور ان کے ساتھی ملکی سیاسی تاریخ کو کیوں بھول گئے ہیں؟ اس ملک میں اقتدار کی کرسی پر کٹھ پتلیاں سجانے والے اگر مسلم لیگ ق کے سر سے دست شفقت اٹھا سکتے ہیں تو عمران خان کے سر سے بھی جلد یا بدیر انہیں دست شفقت اٹھانے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو گی۔



یہ بھی پڑھیے: رانا ثنا اللہ نے گرفتاری سے پہلے حامد میر سے کیا کہا؟







منشیات کے مقدمات وقت بدلنے پر تحریک انصاف کے خلاف بھی بنیں گے اور اگر اس دوران محض اس جماعت کی قیادت کا بلڈ ٹیسٹ ہو گیا تو پھر یہ جماعت اپنی اعلیٰ قیادت کو ہمیشہ کے لئے کھو دے گی۔ دوسری جانب رانا ثنا اللہ کے طرز سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن جس بھونڈے طریقے سے ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے اس کو دیکھ کر پرویز مشرف اور ضیا الحق کے ادوار کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ جو اس وقت تحریک انصاف کے لئے وزارت داخلہ کے امور دیکھ رہے ہیں ان موصوف نے سال 2002 میں مشرف کے دور میں مسلم لیگ نواز کو توڑنے اور مسلم لیگ ق بنانے میں کلیدی کردار انجام دیا تھا۔



البتہ اس مرتبہ قباحت یہ ہے کہ نہ تو نواز شریف جلا وطن ہوا ہے اور نہ ہی مسلم لیگ نواز میں کسی بڑی دراڑ کے پڑنے کا امکان موجود ہے۔ اس لئے تحریک انصاف کی حکومت اور مقتدر قوتیں اب جھنجھلاہٹ کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔

بتدریج دم توڑتی ہوئی معیشت اور سیاسی عدم استحکام نے ملک کو اس نہج پر پہنچا ڈالا ہے جہاں سے واپس بہتری کہ جانب آنا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ ایک طرف تاجر سراپا احتجاج ہیں تو دوسری جانب عوام مہنگائی کے ہاتھوں بلبلا اٹھے ہیں لیکن تحریک انصاف اور مقتدر قوتوں کے پاس اپوزیشن کے ارکان کو گرفتار کرنے اور گذشتہ حکومتوں کو کوسنے کے علاوہ معاشی و سیاسی گرداب سے باہر نکلنے کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔

اب بھلے ہی انکل سام بخشیش دیں یا عالمی مالیاتی اداروں سے امداد دلوائیں اور سعودی عرب ادھار پر تیل دے، یہ معاشی و سیاسی بحران ایسے نہیں ٹلنے والا۔ کبھی کبھار وقت ایسی چالیں چل جاتا ہے جن کا توڑ طاقت اور جبر کے ہتھکنڈوں کو اپنا کر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مقتدر قوتیں کٹھ پتلی کو تو لے آئیں لیکن عالمی حالات کو قابو کرنا ان کے اختیار میں نہیں ہے۔

چین سے بڑھتی ہوئی دوری، واشنگٹن سے کسی بھی قسم کی پراکسی جنگ سے ڈالر نہ ملنے کی حقیقت، اور ملک سے سرمایہ داروں کا بھاگ جانا ایسے مصائب ہیں جنہیں محض اپوزیشن کو گرفتار کر کے حل نہیں کیا جا سکتا۔

خبریں ہیں کہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے کئی اہم رہنماؤں کو بھی پابند سلاسل کر دیا جائے گا تاکہ اس  مصنوعی جمہوری عمل اور نظر نہ آنے والے مارشل لا کے خلاف شور مچاتی آوازیں بند کی جا سکیں اور سناٹوں کو منزل طے کرنے کی خوش فہمی سمجھ کے وقت گزار دیا جائے۔



خیر، جہاں تک رانا ثنااللہ کی بات ہے تو مشرف دور کے بدترین تشدد کے باوحود وہ اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا اور اپنی جماعت کو بدترین حالات میں بھی نہیں چھوڑا۔ رانا ثنااللہ ایک بار پھر یہ تشدد اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر لے گا لیکن ایسے ہتھکنڈوں سے نہ تو تحریک انصاف کی حکومت کو دوام ملے گا اور نہ ہی مقتدر قوتوں کو اس کا کوئی خاص فائدہ ہو گا۔ الٹا مسلم لیگ نواز کا ووٹ بنک عمران خان کے ساتھ ساتھ مقتدر قوتوں سے بھی متنفر ہو گا۔

اکہتر برسوں سے جاری یہ تماشہ جب تک ختم نہیں ہو گا تب تک ملک گول دائروں میں ہی گھومتا رہے گا۔ سیاستدان تو اپنی چمڑیاں بھی ادھڑواتے ہیں اور سولی پر بھی لٹک جاتے ہیں لیکن جو قوتیں پس پردہ سیاسی انجینئرنگ کر کے ملک کو ہمیشہ اقتصادی و سیاسی بحرانوں سے دوچار کرتی ہیں ان کو قانون اور آئین کے تابع کرنے کے لئے حقیقی جمہوری جماعتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی اشد ضرورت ہے۔



چشم تماشہ نے مشاہد اللہ خان، سعد رفیق، جاوید ہاشمی کی چمڑی ادھڑتے ہوئے دیکھ رکھی ہے اور اس دور کے حاکم وقت پرویز مشرف کی فسطائیت کو بھی دیکھا ہے۔ پھر انہی گنہگار آنکھوں نے پرویز مشرف کو عدالتوں میں بطور ملزم پیش ہوتے بھی دیکھ رکھا ہے۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگا کرتی اور تحریک انصاف جو مفاد پرست سیاستدانوں پر مشتمل ٹولہ ہے ہوا کا رخ بدلنے پر تنکوں کی مانند ڈھیر ہو جائے گی۔

آخر میں اس فسطائیت اور آمرانہ پن کا حساب اور جواب عمران خان اور ان کے چند قریبی ساتھیوں کو ہی دینا پڑے گا۔ اگر عمران خان اس خوش فہمی میں ہیں کہ وہ ہمیشہ مقتدر قوتوں کے "راج دلارے" رہیں گے تو انہیں اس خوش گمانی سے نکلنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ ریاست پر اقتدار کی خطرناک بساط ہے جہاں اصغر خان، ظفر اللہ خان جمالی اورگجرات کے چوہدریوں کی مانند مہروں کو استعمال کر کے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

ایک ایسی حکومت جو متنازع انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی ہو اور جس کے پاس معیشت اور دیگر ملکی مسائل حل کرنے کی استعداد ہی موجود نہ ہو اس کی اپوزیشن کے اراکین کو جعلی مقدمات میں گرفتار کرنے کی حماقت دراصل سیاسی خود کشی کے مترادف ہے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔