میرا تعلق ایک میڈیا ادارے سے ہے اور میں بحثیت صحافی میڈیا میں گردش کرتی روزانہ کی خبروں، تجزیوں اور تبصروں کو دیکھتا اور سنتا ہوں۔ آج میڈیا میں کون سی خبر سب سے زیادہ چل رہی ہے، ملکی سیاسی جوڑ توڑ کے حالات کیا ہیں؟ پیٹرول ، بجلی، گیس اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہو رہا ہے؟ حکومت کل جارہی ہے یا پرسوں؟ نیب اور ایف آئی اے کیسز کی تازہ ترین کیا صورت حال ہے؟ ہمارے وزیراعظم، انکی کابینہ اور اپوزیشن ایک دوسرے کے خلاف کیا بیانات داغ رہے ہیں؟ علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر کون سا ایشو یا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے وغیرہ دیکھنا میرا کام ہے ، اسے میرا شوق سمجھ لیں، مجبوری یا نوکری مگر حالات حاضرہ سے باخبر رہنا اور انہیں بلا تفریق عوام تک پہنچانا ہی میری ذمہ داری ہے۔
آزادی اظہار پر یقین رکھتے ہوئے میں تمام میڈیا چینلز اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کرنا اپنا صحافتی فرض سمجھتا ہوں جہاں حقیقی عوامی مسائل کو اہمیت نہیں دی جاتی اور انہیں یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے البتہ ریٹنگ کے چکروں میں ایسے موضوعات بھی پس پشت ڈال دئیے جاتے ہیں جنہیں منظر عام پر لانا اور انہیں اپنی خبروں کا مرکز بنانا بے حد ضروری ہے۔
میں بحثیت ایڈیٹر روزانہ کی بنیاد پر ریپ اور ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی جنسی درنگی کی خبریں دیکھتا ہوں۔ ذاتی حیثیت میں کوشش بھی کرتا ہوں کہ اس اہم اور سنجیدہ مسئلے کو اجاگر کیا جائے کیونکہ اس کا تدارک اسے منظر عام پر لانے اور اس مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر موضوع بحث بنانے کے بغیر ممکن نہیں مگر ہمارے چینلز پر ریپ کی خبروں کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی بلکہ یہ معمول کی خبروں میں سے ہی ایک خبر بن کر رہ گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر اِکا دکا کیسز وائرل ہو جائیں تو میڈیا پکڑ لیتا ہے وگرنہ خواتین، چھوٹے بچے اور بچیوں کے ریپ کی ایک خبر اگلے ہی گھنٹے بعد اپنی موت آپ مر جاتی ہے جبکہ غیر ضروری خبریں پھر سے متحرک ہو جاتی ہیں۔ کئی دفعہ دن میں 10 سے 15 ریپ کیسز میڈیا پر رپورٹ ہوتے ہیں مگر رات کو تمام چینلز سے غائب ہو جاتے ہیں اور چینلز اپنے پرائم شوز میں سیاسی رہنماؤں کی بے مقصد اور لا حاصل لڑائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ ان بے مقصد موضوعات سے شاید ان کو ریٹنگ تو مل جاتی ہے مگر ریپ جیسا یہ اہم معاشرتی مسئلہ جوں کا توں ہے جس میں میڈیا کی عدم دلچسپی اس مسئلے کے تدارک میں اہم رکاوٹ بن گئی ہے۔
ہمارے ملک کے میڈیا اور معاشرے کے مجموعی انحطاط کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ٹک ٹاک سٹار حریم شاہ کی شادی کی خبر سب کے لئے اہم ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میڈیا کے پاس حریم شاہ کی شادی کی خبر چلانے کے سوا کچھ نہ تھا ، میڈیا کے لئے اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حریم شاہ نے شادی کس سے کی ہے۔ گویا 22 کروڑ عوام کے ملک میں اور کوئی موضوع یا مسئلہ بچا ہی نہیں۔
جن دنوں حریم شاہ کی شادی کا مسئلہ زیر بحث ہے انہیں دنوں سوشل میڈیا پر بحریہ ٹاؤن کے خلاف آواز اٹھانے والے اور جبری گمشدگی کا شکار سینگار نورانی کی بازیابی کے لئے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چل رہے ہیں مگر سینگار سمیت جبری گمشدگی کے شکار کسی بھی شخص پر میڈیا کا کوئی ادارہ بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کے قبضے کے خلاف آزدی صحافت کے نعرے بلند کرنے والے صحافیوں اور میڈیا اداروں کی خاموشی پھر بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اس شخص (ملک ریاض) نے اپنی دولت کے بل بوتے پر انہیں یرغمال بنا رکھا ہے مگر ریاست کے شہریوں کو غائب کرنے پر بھی میڈیا بات نہیں کر سکتا تو شاید اس کا وجود بے مقصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہریوں کا حکومت اور مین سٹریم میڈیا پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے اور اب وہ فیک نیوز اور گمراہ کن تھمب نیل والے یو ٹیوبرز کی خبروں پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔
بحثیت صحافی میں نے محسوس کیا ہے کہ شوبز انڈسٹری کے ستاروں کے فیس بک اور انسٹا گرام سٹوری کی خبریں، انکی انتہائی معمولی لڑائیاں انسانی حقوق کی جنگ لڑنے والے سینٹر عثمان کاکڑ سے زیادہ اہم ہیں جہاں کسی بھی ایک میڈیا چینل نے عثمان کاکڑ کی موت پر 2 منٹ کی خبر نہ چلائی اور ان کے زخمی ہونے سے لیکر ان کے ہزاروں کے جنازے کو میڈیا پر ٹوٹل بلیک آؤٹ کیا گیا۔ البتہ حرا مانی کا بیرون ملک سفر، ہمایوں سعید کا آئی ایس پی آر سے نیا کانٹریکٹ اور سونیا حسین کے حسن کا راز بتانا ہی شاید میڈیا کیلئے اہم ترین موضوع ہے۔
کرونا لاک ڈاؤن کے بعد لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوئے، حکومت نے ان کے روزگار کی بحالی کے لئے کس قدر سنجیدہ ہے ہمارے میڈیا کے لئے غیر ضروری موضوع ہے۔ کسی بھی مین سٹریم میڈیا میں آج تک اس سوال پر پروگرام نہیں کیا گیا کہ پاکستان میں 5 کروڑ 90 لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی کیوں گزار رہے ہیں؟ آج تک کسی بھی مین سٹریم میڈیا کے چینل نے حکومت سے یہ سوال نہیں کیا کہ کراچی میں گجر نالہ ، اورنگی نالہ مسمار کرنے اور نا جائز تجاوزات کے نام پر بے گھر کئے گئے لاکھوں افراد کا کیا بنے گا؟ کسی بھی میڈیا ادارے نے بڑھتی ہوئی عدم برابری اور ماحولیاتی آلودگی پر سوال نہیں اٹھایا۔ کسی بھی میڈیا ادارے میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے تدارک کے لئے آج تک ایک پروگرام تک مرتب نہیں کیا گیا البتہ ہر میڈیا چینل پر روزانہ رات کو تمام بڑے اینکرز اور مفکرین کا اپنی سرپرستی میں حکومت اور اپوزیشن کی لڑائیاں کروانا اور ریٹنگ کے چکروں میں سیاسی الزام تراشیاں ہی اہم موضوع رہ گیا ہے۔
میڈیا اداروں کا ماننا ہے کہ عوام سیاسی بحث و مباحثہ اور سنسنی خیز خبریں سننے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے مگر انہیں احساس دلانا کہ کون سے موضوعات اہم ہیں، یہ بھی میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ میڈیا عوام کو جو دکھائے گا عوام اسی میں دلچسپی لیں گے۔ میڈیا ہی اس بات کا تعین کرتا ہے کہ عوام اور حکمرانوں کو کن مسائل کا ادراک کروانا ضروری ہے اور کون سے موضوعات کو لائم لائٹ میں جگہ دینی ہے۔
یقیناً ملکی سیاست اور سیاسی فیصلوں سے عوام کو آگاہ کرنا میڈیا کا کام ہے، مگر جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ کئی دفعہ میڈیا کے پاس کوئی سیاسی موضوع نہیں ہوتا اور ملکی معاشی و معاشرتی موضوعات پر بات کرنے کی کھلی سپیس بھی موجود ہوتی ہے تب بھی ان موضوعات کے بارے میں نہیں سوچا جاتا۔ جب کسی روز میڈیا کو کوئی سیاسی یا سنسی خیز خبر نہ ملے تو میڈیا مالکان کے چہرے پر افسردگی چھا جاتی ہے مگر پھر بھی عوامی مسائل پر بات نہیں ہوتی البتہ جہانگیر ترین، شہباز شریف اور دیگر گھسے پٹے نیب کیسز کی رٹی رٹائی کہانیوں کو دوبارہ کھول لیا جاتا ہے اور تجزیہ نگاروں کی فوج آکر ان کیسز کی نئی کہانیاں اور انکشافات سامنے لے آتی ہے۔
میڈیا ریاست کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے جس کا کام دیگر تین ستونوں کی غیر جانبدارانہ نگرانی کرنا ہے تاکہ مقننہ، عاملہ اور عدلیہ کے ان تمام فیصلوں پر کڑی نظر رکھی جائے کہ آیا یہ ادارے روٹی، کپڑا، مکان، صحت اور روزگار جیسے عوامی مسائل کے لئے کام کر رہے ہیں یا اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مگر جب وہی میڈیا حقیقی عوامی مسائل پر اپنی آنکھیں بند کرلے اور ریٹنگ کے چکرمیں اپنی اصل ذمہ داری سے منحرف جائے تو نہ صرف اس کے کردار پر سوالات اٹھیں گے بلکہ دیگر تمام اداروں کو شہہ ملے گی کہ وہ اس کی آزادی پر قدغنیں لگائے یا اسکی آزادی سلب کرے، تب عوام بھی میڈیا کی آزادی کے ساتھ کھڑی نہیں ہوگی کیونکہ عوام کو ادراک ہو چکا ہے کہ میڈیا عوامی مسئلے اجاگر کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنے منافع اور ریٹنگ کے لئے سرگرم ہے۔ بقول بیدل حیدری؎
گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
بیدل لباسِ زیست بہت دلفریب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا
ٹیگز: آزادی صحافت, بے روزگاری, پاکستانی میڈیا, جبری گمشدگی, جنسی زیادتی, حریم شاہ, ریپ کیسز, غربت, کرونا وبا, مہنگائی, میڈیا
حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔