وہ معمول کا ایک دن تھا اور ناشتہ کرنے کے بعد میں ایک رپورٹ پر کام کرنے کے لئے گھر سے نکلا۔ کچھ ہی دیر بعد میں نے رپورٹ مکمل کی تو سیدھا دوستوں کے ساتھ چائے پینے دفتر پہنچا۔ سوشل میڈیا دیکھنے کے بعد رپورٹ ایڈیٹ کی اور پھر دوستوں کے ساتھ گپ شپ شروع کردی، ایک دم سے سیڑھیوں سے کئی بھاری بوٹوں کے اوپر آنے کی اواز آئی ، مجھے دیکھتے ہی ایک نے دوسرے سے کہا یہی ہے اور پھر میرے آنکھوں پر پٹی ڈال کر مجھے وہاں سے گاڑی میں زبردستی بٹھایا گیا۔ جب مجھے گاڑی میں ڈال کر لے جارہے تھے تو وہ خوش گیپوں میں مصروف تھے جبکہ کالے کپڑے کی وجہ سے میرا سانس بند ہورہا تھا۔ میں نے کئی بار درخواست کی کہ میرا سانس بند ہورا ہے مگر کسی نے میری ایک نہ سنی اور اسی تکلیف میں آگے بڑھتا رہا۔ کچھ ہی وقت بعد مجھے ایک نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا اور مجھ سے ایسے سوالات کئے گئے جن کا دور دور تک میرے پیشے یا شعبہ صحافت سے تعلق ہی نہ تھا بلکہ ان کی باتوں اور تلخیوں سے پتہ چلا کہ وہ مجھ سے نہیں میرے ادارے سے ناراض ہیں۔ دراصل وہ میرے سمیت ہمارے ادارے کے دیگر ساتھیوں کو دھمکا کر ادارے چھوڑنے پر مجبور کررہے ہیں۔ لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور حوصلہ کرکے جواب دیا جس کے بعد مجھے اگلے ہی روز چھوڑ دیا گیا۔
پوری دنیا میں آج آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جارہا ہے اور یہ کہانی پاکستان کے ایک صحافی کی ہے جن کو دو سال پہلے مبینہ طور پر ریاستی اداروں نے اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا ۔ پاکستان میں صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کو کئی چیلینجز درپیش ہیں اور گزشتہ روز فریڈم نیٹ ورک کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ اسلام آباد صحافیوں کے لئے محفوظ شہر نہیں ۔ گزشتہ ایک سال میں ہونے والے حملوں میں چونتیس فیصد حملے اسلام آباد میں کئے گئے ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ صحافیوں کے خاندانوں کی جانب سے ریاستی اداروں پر الزام لگایا گیا کہ وہ ان کے اغوا اور ان کے خلاف دیگر کاروائی میں براہِ راست ملوث ہیں۔
صحافی نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا کہ جب ریاستی ادارے ایک صحافی کو دہشگردوں کی طرح اُٹھاتے ہیں تو پھر واپسی پر صحافیوں کے لئے لوگوں سے آنکھیں ملانا بہت مشکل ہوتا ہے اور ان پر زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ آج تک مجھ پر یہ الزام ہے کہ مجھے اس لئے اُٹھایا گیا کہ میں جاسوس تھا اور ملک کے خلاف باتیں کرتا تھا اور لوگ اس پر یقین بھی کرتے ہیں کیونکہ لوگوں کا شعوری سطح بہت کم ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ اگر مجھے ایک ہزار کلومیٹر دور بلاتے تو میں چلا جاتا مگر جس طرح سے مجھے نشانہ بنایا گیا اس نے مجھے اندر سے توڑ دیا۔
قبائلی اضلاع اور خیبر پختونخوا میں صحافت کو بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور وہاں آج تک صحافیوں کو کئی مسائل کا سامنا ہے ۔ ٹرائبل یونین آف جرنلسٹ (جو قبائلی اضلاع کی صحافیوں پر مشتمل تنظیم ہے) کے مطابق گزشتہ 18 سال کے دوران سابقہ فاٹا میں سولہ کے لگ بھگ صحافیوں کو مارا گیا مگر ان کے قاتلوں کا تاحال پتہ نہیں چل سکا۔
گزشتہ دو دہائیوں سے صحافت سے وابستہ رفعت اللہ اورکزئی جنھوں نے قبائلی اضلاع میں بین القوامی خبر رساں ایجنسی بی بی سی کے لئے رپورٹنگ کی ہے، انھوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ پاکستان میں میڈیا کو ہمیشہ چیلینجز کا سامنا کرنا پڑا اور یہ سلسلہ عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پوری دنیا میں میڈیا پر قدعنیں ہوتی ہیں لیکن صحافیوں کو اس طرح سر عام مارا نہیں جاتا جیسے پاکستان میں ہورہا ہے۔ رفعت اللہ اورکزئی سمجھتے ہیں کہ صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں میں صحافیوں کی اپنی بھی غلطیاں شامل ہیں اور شاید آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پروفیشل تربیت کی ضرورت ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قبائلی اضلاع میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں میں اگر ایک طرف ریاستی اور غیر ریاستی عناصر نے ظلم کرکے صحافیوں کو قتل کیا تو دوسری جانب صحافیوں کی غلطیاں بھی اس میں شامل تھی جیسے قبائلی اضلاع بین القوامی صحافت کا مرکز بن گیا مگر صحافیوں کی تربیت اس طرح نہیں تھی کہ نہ ہی وہ خبر کی حساسیت کو سمجھ سکے اور اپنی جان سے ہاتھ دو بیٹھے۔ رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق صحافت کی غیر جانب داری ہی صحافیوں کی حفاظت کی ضامن ہے۔
صحافی رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق قبائلی اضلاع میں 20 سال تک ایک بھر پور جنگ لڑی گئی مگر مقامی میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو اپنے اداروں کی جانب سے تربیت نہیں دی گئی اور الیکٹرانک میڈیا کو صحافی سے زیادہ خبر میں دلچسپی تھی ۔ ان کے مطابق صحافیوں کے قتل میں اداروں کے مالکان کا بھی ہاتھ تھا۔ رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق قبائلی اضلاع میں صحافیوں نے میڈیا اداروں کے لئے مفت کام کیا مگر ان کے قتل کے بعد ان کو اداروں کی جانب سے کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔
قبائلی اضلاع میں بین القوامی میڈیا مشال ریڈیو (ریڈیو فری یورپ) سے منسلک صحافی شاہ نواز ترکزئی کو کچھ سال پہلے ریاستی اداروں نے اپنے دفتر سے اُٹھایا ۔ وہ کئی گھنٹے یرغمالی میں رہے اور پھر تفشیش کے بعد ان کو واپس چھوڑ دیا گیا۔ نیا دور میڈیا کے ساتھ اس حادثے کے بعد کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے شاہ نواز نے کہا کہ اس حادثے نے میرے سمیت میرے گھر والوں کی زندگی بھی یکسر تبدیل کر دی اور یہ حادثہ کسی سانحے سے کم نہیں تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس واقعے کے بعد میں نے خود پر سنسر شپ لاگو کر لی ہے اور کسی بھی خبر کو کرنے کے بعد دس بار سوچتا ہو کہ کیا یہ خبر میری زندگی کے لئے خطرہ تو ثابت نہیں ہوسکتی۔ اگر خود پر خودکار سنسر شپ لگا کر بھی کوئی ایسی خبر بھیج دو تو پھر ایک پریشانی ہوتی ہے کہ اب ریاستی ادارے اس رپورٹ سے ناراض تو نہیں ہونگے۔
ترکزئی کے مطابق پہلے میں جس وقت بھی گھر جاتا تھا گھر والوں کو کبھی پریشانی نہیں ہوئی مگر اب عصر کے بعد اگر میں گھر نہ پہنچوں تو گھر والوں کو پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ میں ابھی تک گھر کیوں نہیں پہنچا۔
سفر کے حوالے سے تجربہ بتاتے ہوئے شاہ نواز نے کہا کہ جب بھی میں گاڑی ڈرائیو کرتا ہوں اور مجھے سائیڈ والے شیشوں سے کوئی گاڑی نظر آئے جو مسلسل میرے پیچھے ہو تو میں گاڑی کسی گاؤں یا پولیس چیک پوسٹ کے ساتھ کھڑی کردیتا ہو۔
گزشتہ دو دہائیوں سے سندھ میں صحافت کرنے والے امر گرڑو جو آج کل ایک بین القوامی میڈیا سے وابستہ ہیں نے پاکستان میں صحافت پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صحافی کا کام بنیادی طور پر ایک ٹرانسپورٹر کا ہے جو خبر لے جانے کا کام کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے اج کل صحافت کہی گم ہوگئی ہے اور کوئی ایکٹویسٹ ہے تو کوئی سیاسی پارٹی کا کارکن۔ انھوں نے مزید بتایا کہ میں نے گزشہ کئی سالوں میں کئی حساس خبروں پر کام کیا ہے مگر مجھے کبھی کسی کی جانب سے کال یا دھمکی نہیں آئی کیونکہ اس میں میری رائے شامل نہیں ہوتی بلکہ حقائق پر مبنی ایک رپورٹ ہوتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صحافی جانبداری دکھا سکتا ہے مگر صحافی بھی انسان ہے اور ان سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہے مگر کوئی صحافی صحافت کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرکے کوئی سیاسی لڑائی نہیں لڑسکتا اس لئے صحافی کو بطور صحافی ہی کام کرنا چاہیے ۔