قطرے پلانے سے انکار، ورکرز پر حملے؛ پاکستان پولیو فری نہیں ہو سکتا

حالیہ پولیو مہم کے دوران صرف پشاور میں 6،835 والدین نے اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کیا ہے۔ اسی طرح ایک بہت بڑا مسئلہ ہر دفعہ 'بچہ موجود نہیں' کی شکل میں سامنے آ رہا ہے اور ان والدین کی تعداد 14،222 ریکارڈ کی گئی ہے جنہوں نے بچہ دستیاب نہ ہونے کا عذر پیش کیا ہے۔

قطرے پلانے سے انکار، ورکرز پر حملے؛ پاکستان پولیو فری نہیں ہو سکتا

خیبر پختونخوا میں گذشتہ ساڑھے چار سال کے دوران پولیو ڈیوٹی پر مامور پولیس حکام اور محکمہ صحت کے 109 اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان میں سے 36 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ نشانہ بننے والوں میں 9 خواتین بھی شامل ہیں۔

پوری دنیا میں صرف دو ممالک پاکستان اور افغانستان آج بھی پولیو سے متاثر ہیں۔ رواں سال کے دوران اب تک پاکستان سے پولیو کے 6 مصدقہ کیس سامنے آئے ہیں جن میں سے 5 بلوچستان اور ایک صوبہ سندھ سے رپورٹ ہوا ہے۔ بلوچستان میں قلعہ عبداللہ سے 2، ڈیرہ بگٹی، کوئٹہ اور چمن سے ایک ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔ تاہم اب تک رپورٹ ہونے والے کیسز میں خیبر پختونخوا کا کوئی ذکر نہیں۔ ای او سی کی جانب سے امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ سال کے ختم ہونے تک پختونخوا سے کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوگا، مگر انکاری والدین کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہوگا؟ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ہر سال پولیو کو ختم کرنے کا ٹارگٹ رکھا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے یہ ٹارگٹ پورا نہیں ہوتا جس کی وجہ نئے کیسز کا سامنے آنا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے اپنے بچوں کو پلانے سے انکار ہے۔ گذشتہ پولیو مہم کے دوران صرف پشاور میں 6،835 والدین نے اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کیا ہے۔ اسی طرح ایک بہت بڑا مسئلہ ہر دفعہ 'بچہ موجود نہیں' کی شکل میں سامنے آ رہا ہے جس کی تعداد اوپر دیے گئے اعداد و شمار کے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ اسی مظہر کو پولیو والے 'بچہ دستیاب نہیں' کی کیٹگری میں ڈالتے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ بھی پولیو سے انکاری والدین کا ایک حربہ ہے۔ ایمرجنسی آپریشن سنٹر کے ریکارڈ کے مطابق گذشتہ پولیو مہم کے دوران 14،222 بچے 'بچہ دستیاب نہیں' کی درجہ بندی میں ڈالے گئے تھے۔

پولیو کے قطرے محفوظ ہیں یا غیر محفوظ، اس موضوع پر میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر اعجاز خان کہتے ہیں کہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے غیر محفوظ ہیں یا اس سے خدانخواستہ کوئی جنسی مسائل بنتے ہیں، یہ ساری باتیں افواہیں ہیں۔ اسی بنا پر اپنے بچوں کو ہمیشہ کے لئے معذور کرنے کے راستے پر ڈالنا افسوس ناک ہونے کے ساتھ ایک المیہ ہے۔

ڈاکٹر اعجاز کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس سے کوئی جنسی مسائل پیدا ہوتے تو ہمارے صوبے اور ملک کی آبادی اسی تیزی کے ساتھ نہ بڑھتی۔ پولیو وائرس میں جو خطرناک بات ہے وہ یہ ہے کہ پولیو وائرس پانی کے ساتھ ملتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پولیو کے شکار بچوں کے پاخانہ سے پولیو وائرس گٹر کے راستے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے جو کہ صحت مند بچوں کے لئے بھی خطرے کا باعث بنتا ہے۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

1988 سے اب تک 122 ممالک میں پولیو کا خاتمہ کیسے ممکن ہوا اور پاکستان اور افغانستان میں کیوں نہیں ہو رہا؟ اس حوالے سے ایمرجنسی آپریشن سنٹر کے کمیونیکیشن آفیسر شاداب یونس نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کا مسئلہ بارڈر کی دونوں جانب نقل و حرکت ہے اور ریفیوزل کا مسئلہ ہی اس کی بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے آج تک پولیو کے خاتمے میں کامیابی نہیں مل سکی۔ ہم نے اس مرتبہ 2024 کا ٹارگٹ رکھا ہے جو ہر سال رکھا جاتا ہے اس کا مقصد پولیو کو جڑ سے اکھاڑنے کا ہے کیونکہ ہمارا پروگرام پولیو کنٹرول کرنا نہیں بلکہ اس کا خاتمہ ہے مگر اس کے لئے 100 فیصد بچوں تک رسائی کا ہدف حاصل کرنا ہو گا جس میں فی الحال کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ امید ہے کہ بہت جلد ہم اپنے ہدف کو حاصل کر کے پولیو کو بھی ختم کر پائیں گے۔

ان کا کہنا تھا جہاں تک پشاور کی بات ہے یہاں پر تین مختلف سائیٹس ہیں جن میں نر خوڑ، لڑمہ اور شاہین مسلم ٹاون شامل ہیں۔ اس کے ماحول کا بار بار معائنہ ہوتا ہے مگر ہوا میں پولیو وائرس موجود ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی اضلاع سے کوہاٹ، ڈی آئی خان اور باقی علاقوں میں بھی پولیو وائرس کی موجودگی کے ثبوت لگاتار معائنے کے ذریعے سامنے آ رہے ہیں۔ گو کہ پختونخوا سے اب تک پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا لیکن ہم اس بارے میں وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ 2024 محفوظ سال ہو گا۔ پولیو وائرس ہزاروں بچوں میں سے کسی ایک کمزور کو نشانہ بناتا ہے۔ جب تک ماحول میں وائرس موجود رہے گا خطرہ برقرار رہے گا۔

ایمرجنسی آپریشن سنٹر ای او سی کے ترجمان کے مطابق یہ تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے جو ہمارے لئے ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ہم پشاور کی بات کریں تو پشاور میں رہائش پذیر 'سلفی یا اہل حدیث' سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے ناصرف انکار کیا ہے بلکہ اس حوالے سے ایک فتویٰ بھی جاری کیا ہے کہ جو بندہ اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے گا اس کے ساتھ تعلقات ختم کر دیے جائیں گے یعنی اس کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے گا۔ ایمرجنسی آپریشن سنٹر اور محکمہ صحت حکام نے ان سے بار بار مذاکرات بھی کیے ہیں مگر اب تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔

اس کے علاوہ بھی صوبے کے مختلف علاقوں میں کافی مسائل ہیں۔ بعض اوقات سکیورٹی صورت حال کی وجہ سے پولیو مہم متاثر ہوتی ہے تو کہیں خراب حالات کے پیش نظر چھپ چھپ کے پولیو مہم چلانا پڑتی ہے۔ موزوں حالات میسر نہ آنے کے پیش نظر مسائل موجود ہیں جس کا ہم مقابلہ کر رہے ہیں مگر زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں کا ساتھ ہو گا تب ہی اس وائرس کا خاتمہ ہو گا اور ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو گا۔ شاداب یونس کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیو کے حوالے سے ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ اس سے صرف معذوری ہوتی ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ پولیو وائرس سے متاثرہ بچے کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے، معذوری تو لازمی ہے۔

ایمرجنسی آپریشن سنٹر ریکارڈ کے مطابق اس کٹھن سفر کے دوران خیبر پختونخوا میں محض گزشتہ ساڑھے چار سال کے دوران اب تک 109 افراد پولیو مہم کے دوران مختلف واقعات میں شرپسندوں کی جانب سے نشانہ بن چکے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق 2020 میں مجموعی طور پر 6 اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی جن میں سے 3 اہلکار شہید اور 3 زخمی ہوئے۔ زخمیوں اور شہدا میں دو خواتین پولیو ورکرز بھی شامل تھیں۔

اسی طرح 2021 میں مجموعی طور پر 18 افراد نشانہ بنے جن میں سے 6 شہید، 11 زخمی اور ایک اغوا ہوا۔ شہدا اور زخمیوں میں 3 خواتین پولیو ورکرز بھی شامل تھیں۔

2022 میں پولیو مہم کے دوران 19 افراد کو نشانہ بنایا گیا جن میں 7 شہید، 12 زخمی اور ایک مغوی شامل ہے۔ شہید ہونے والوں میں ایک خاتون پولیو ورکر بھی شامل تھی۔

2023 میں پولیو مہم کے دوران 22 افراد کو نشانہ بنایا گیا جن میں 6 شہدا، 11 زخمی اور 5 مغوی شامل ہیں۔ ایک خاتون پولیو ورکر بھی نشانہ بننے والوں میں شامل تھیں۔

رواں سال اب تک پولیو ڈیوٹی کے دوران 51 پولیو ورکرز اور پولیس اہلکار نشانہ بن چکے ہیں جن میں 14 شہدا اور 37 زخمی شامل ہیں۔ شہید ہونے والوں میں ایک خاتون پولیو ورکر بھی شامل ہے۔ گذشتہ پانچ سال میں پولیو مہم کے دوران سب سے پرتشدد سال 2024 ہے جس کے ختم ہونے میں اب بھی چھ ماہ باقی ہیں۔

سید زاہد عثمان کا تعلق پشاور سے ہے۔