پولیو ایک خطرناک وائرل مرض ہے جس سے بچاؤ کی ویکسین نہ لینے کی صورت میں بیماری کے بعد متاثرہ شخص ساری عمر کے لیۓ معذور ہو جاتا ہے۔یہ کہا جاتا ہے کہ اس بیماری کا پہلا مریض 1773 میں منظر عام پر آیا۔اس وقت دنیا میں دو ویکسین استعمال ہو رہی ہیں۔ پہلی ویکسین بنانے کا کارنامہ ہوناس سالک کے سر ہے جس نے 1952 میں پولیو ویکسین بنانے کا کارنامہ سر انجام دیا جس کو استعمال کے بعد دنیا بھر میں پولیو کے مریضوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔
پولیو کی دوسری ویکسین البرٹ نے 1962 میں بنائی جس کو منہ کے ذریعہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد دنیا بھر کے پولیو کیسز مزید کم ہو گئے اور رفتہ رفتہ یہ تمام دنیا سے ختم ہو گئے۔ ماسواۓ افریقہ،پاکستان اور افغانستان۔ افریقہ میں بھی پولیو کا آخری کیس 2016 میں نائجیریا میں سامنے آیا تھا چنانچہ چار سال مزید باریک بینی سے تحقیق کرنے کے بعد رواں برس اگست میں انڈیپنڈنٹ افریقہ ریجنل سرٹیفکیٹ کمیشن نے پورے براعظم افریقہ کو پولیو سے پاک براعظم قرار دے دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر کے جن ممالک میں پولیو پر قابو پایا جا چکا ہے وہ ان حکومتوں اور ان کی عوام چاہے وہ مذہبی ہو یا ملحد ہو ان سب کے ایکے اور تعاون سے ممکن ہوا ہے۔اس مقصد کے لیۓ ترقی یافتہ ممالک میں تو لوگ خود ہی اتنے باشعور تھے کہ حکومتوں کو پولیو کی ویکسین عوام کو فراہم کرنے میں کوئی تردد نہیں کرنا پڑا مگر ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک میں ویکسین کی فراہمی ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرا۔ اس کی مختلف ممالک میں کی وجوہات تھیں۔ جن میں سے ایک وجہ ان تمام ممالک میں یکساں تھی اور وہ تھی پولیو کے قطروں کو کسی نہ کسی وجہ سے مذہبی یا انتہاپسند طبقہ کی طرف سے حرام قرار دینا۔
مثال کے طور پر نائجیریا میں بوکوحرام نے پولیو قطروں کو حرام قرار دیا جب بوکوحرام کا زور ٹوٹا تب کہیں جا کر افریقہ پولیو فری قرار پایا۔ اسی طرح صومالیہ میں الشہاب جہادی تنظیم اور پاکستان و افغانستان میں طالبان اور ان کے اتحادی دھڑے بشمول دیگر لاعلم طبقے کے پولیو کی راہ میں رکاوٹ بنے اور ابھی تک بن رہے ہیں۔ یوگنڈا،کانگو اور دیگر کئ افریقی ممالک میں بھی کئ برس تک پولیو ٹیمیں خانہ جنگیں کے باعث داخل نہ ہو سکیں۔
صومالیہ کی جہادی تنظیم نے تو پولیو کے قطروں کو حلال قرار دے دیا البتہ پاکستان اور افغانستان میں طالبان اور ان کی ذہنیت رکھنے والے افراد ابھی تک اس کی افادیت کے قائل نہیں ہو سکے اور محض مغرب دشمنی کا ذہن رکھنے کی وجہ سے اس کو مغرب کی سازش سمجھتے ہوئے اس کے خلاف ہیں۔ اگرچہ چند علما نے مجبوراً سرکاری درخواستوں کے نتیجہ میں پولیو کو حلال قرار دے کر عوام سے پولیو کے قطرے بچوں کو پلانے کا کہا ہے مگر ان کا جوش وخروش جیسا دوسرے موضوعات اور ریلیوں میں دیکھنے میں آتا ہے اس معاملہ میں اس کا فقدان ہے۔
ہمارے خطہ یعنی افغانستان اور پاکستان میں نائن الیون کے بعد امریکہ کے افغانستان پر حملہ اور طالبان کے پاکستان میں پناہ لینے کے بعد پولیو ورکرز کو امریکی ایجنڈا پر کام کرنے والا سمجھ کر ان پر حملے کر کے ان کو مارا جانے لگا اور ان قطروں کا حرام سمجھا جانے لگا۔اس مہم کو امریکی ایجنڈا سمجھنے کی ایک وجہ بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی اس مہم کے لیۓ فنڈنگ بھی تھی۔اس بات میں کوئ شک نہیں کہ یہ سوچ یقیناً غلط تھی اور غلط ہے کیونکہ ایسے مخیر حضرات کا جو محض انسانیت کی خدمت کے لیۓ اپنا پیسا صرف کر رہے ہیں ان کا کسی منفی ایجنڈے سے کیا تعلق؟
پاکستان میں ابھی بھی پولیو ورکرز پر گاہے بگاہے حملے ہوتے رہتے ہیں اور ان میں زیادہ شدت قبائلی علاقوں میں ہے اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان علاقوں میں طالبان کا اثرورسوخ موجود رہا ہے اور ان کے مطابق یہ قطرے امریکی سازش ہے۔اس کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان علاقوں میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کہ برابر ہیں اور کسی دوسرے علاقہ سے کبھی کوئی وہاں علاج کی غرض سے دوائ مفت میں تقسیم کرنے نہیں گیا اس لیۓ جب پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیمیں وہاں جاتی ہیں تو وہاں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ معاملہ گڑبڑ ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پولیو ورکرز نے خود پر ہونے والے حملوں کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری اور ان کے حوصلے بلند ہیں جس سے اس بات پر یقین ہو جاتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ہم بھی پولیو فری پاکستان دیکھیں گے۔اللہ کرے کہ ان لوگوں کو بھی عقل آئے جو اپنی جاہلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم سے معذوری ختم نہیں ہونے دے رہے۔ہمارے علما کو بھی اس معاملہ پر سنجیدہ ہو کر اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہیۓ۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔