پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے خیبر ضلع کے ٹرانسپورٹ یونین کے صدر شاکر آفریدی نے کہا کہ “ایک بار جب ہائی وے موٹروے بن جائے گی، تو ٹرکوں سے افغانستان کو سا ما ن کی سپلائی کافی تیز ہو جائے گی،” آفریدی نے حال ہی میں سنا تھا کہ سی پیک کے تحت پشاور اور کابل کے درمیان ایک موٹر وے تعمیر کی جائے گی جو کہ ازبکستان تک جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ “یہ ہمارے کاروبار کے لیے اچھا ہو گا اگر ہم ازبکستان تک جا سکیں۔”
سی پیک کا آغاز 2013 میں چین اور پاکستان کے درمیان ایک سو سینتالیس ارب امریکی ڈالر کے دو طرفہ معاہدے کے طور پر ہوا تھا۔ جس میں چین کی طرف سے فراہم کی گی مالی امداد کے تحت پورے ملک میں بچھائے گئے نقل و حمل کے جال، توانائی کے منصوبے اور خصوصی اقتصادی زونز تعمیر کی گئی تھی۔ یہ ایک اندازے کے مطابق باسٹھ ارب امریکی ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔ اب چین چاہتا ہے کہ سی پیک افغانستان تک بڑھایا جائے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال نے دی تھرڈ پول کو خصوصی فون پر انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کے تصدیق کی کہ چین چاہتا ہے کہ سی پیک کو افغانستان تک بڑھایا جائے انہوں نے کہا کہ “یہ قدم پاکستان کو علاقائی رابطے کے لیے اپنے جغرافیائی محل وقوع سے فائدہ اٹھانے کا ایک منفرد موقع فراہم کرے گا۔”
انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق پینتیس سو ہیوی ڈیوٹی ٹرک جن میں آفریدی کے ٹرکس بھی شامل ہیں پاکستان کے ہائی وے اور موٹروے پر سفر کرتے ہیں۔ اور یہ ٹرکس کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں سے مختلف اشیاء جیسے برتن، کپڑا، سگریٹ اور پیک شدہ جوس کے ڈبے لے کر، جلال آباد جو کے افغانستان کا پانچواں بڑا شہر ہے، چار دِنوں میں پہنچا دیتے ہیں۔
ایک مشاورتی کمپنی، رسک ایڈوائزری گروپ کی روس، مشرقی یورپ اور یوریشیا کی ٹیم میں شامل ایک ریسرچ ایسوسی ایٹ صوفیہ نینا برنا-ایسیفی نے کہا کہ سڑک میں ہونے والی توسیع ممکنہ طور پر واخان راہداری سے گزرتے ہوئے چین کو شمال مشرق، پاکستان کو جنوب اور تاجکستان کو شمال سے چھوتے ہوئے گزرے گی۔ اور اسطرح سڑک کی توسیع کا یہ منصوبہ پاکستان کو “بذریعہ افغانستان وسطی ایشیا کا مختصر ترین راستہ” فراہم کرے گا۔
انہوں نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ “ایک بار جب تجارتی سامان پاکستان پہنچ جائیگا تو اس سامان کو پاکستان کے ریل سسٹم سے منسلک کرنے کے لیے اتار دیا جائے گا اور وہاں سے بالآخر یہ سامان پاکستان کی تینوں بندرگاہوں کراچی، قاسم اور گوادر تک پہنچا دیا جائے گا۔”
پاکستانی پارلیمنٹ میں سینیٹر اور دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے والے ایک تھنک ٹینک پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ کے بانی مشاہد حسین سید نے کہا کہ تین بندرگاہوں میں سے، “گوادر تجارت کے لیے سب سے مختصر اور سب سے بہتر قدرتی راستہ ہو گا”۔
ذاکر جلالی، تھرڈ پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ جو افغانستان کی وزارت خارجہ کا حصہ ہے کے ڈائریکٹر جنرل ہیں نے اگست میں تھرڈ پول سے بات کی۔ وہ حال ہی میں ازبکستان کے شہر تاشقند سے واپس آئے تھے۔ جہاں وہ ازبکستان اور پاکستان کے حکام کے ساتھ علاقائی روابط کے مسائل پر بحث کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سڑکوں کے ساتھ ساتھ ایک ریلوے لائن ازبکستان کے شہر ترمذ سے افغانستان کے شہر کابل سے ہوتے ہوئے مزار شریف اور پاکستان کے شہر پشاور تک بچھائی جائے گی۔ ازبکستان میں ریلوے ٹریک کے لیے فیلڈ سروے کا آغاز ہو چکا ہے۔ پانچ سو تہتر کلومیٹر کا یہ ٹریک سب سے پہلے 2018 میں ازبکستان نے تجویز کیا تھا۔
وسطی ایشیائی جمہوری ممالک کے لیے ایک موقع؟
برنا ایسیفی نے کہا کہ سی پیک ازبکستان کے لیے ایک اچھا موقع ہے کیونکہ یہ ایک ایسا ملک جو کہ چاروں طرف سے زمین سے گھرا ہوا ہے۔ سی پیک کے ذریعے وہ غیر روایتی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اپنے تجارتی سامان کی فراہمی کے راستوں کو متنوع بناسکتا ہے۔ گوادر کی نئی گہری سمندری بندرگاہ سے ازبک سامان دنیا میں کہیں بھی لے جایا جا سکے گا۔
سینیٹر سید نے کہا کہ ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان، کرغزستان اور قازقستان نے بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔
وفاقی وزیر اقبال نے کہا کہ سڑکوں کے نیٹ ورک کے ذریعے قائم ہونے والا یہ علاقائی رابطہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے مقصد کو بھی پورا کرے گا۔ ریل اور سڑک کے باہمی سلسلوں کے ذریعے خطے کے ہر ہر حصے میں موجود نئی منڈیوں کو آپس میں ضم کیا جاسکے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پاکستان، افغانستان، چین اور وسطی ایشیائی جمہوری ممالک کے تین ارب کے قریب افراد کی اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا۔
واشنگٹن ڈی سی کے ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کگل مین جو کہ افغانستان کے حالات پر نظر رکھنے والے ممتاز ترین ماہر ہیں نے کہا کہ پاکستان کو امید ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو نیا رخ دیتے ہوئے خود کو جغرافیائی طور پر مضبوط اقتصادی ملک کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرے گا اور اس میں افغانستان اور وسطی ایشیا کے ساتھ مزید تجارتی روابط اور امکانات شامل ہونگے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مزید انفراسٹکچر ( پلوں، سڑکوں اور نکاسی آب کا نظام) کی تعمیر سے اس مقصد میں مدد ملے گی۔
بذریعہ افغانستان ریل رابطہ:
افغان وزیر جلالی نے کہا کہ ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریل رابطے کے ساتھ ساتھ روس بھی قازقستان، ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کے درمیان پانچ ممالک کے ریل رابطے کا حصہ بننے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران، ماسکو طالبان کی حکومت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سفارتی اور سیاسی کوششیں کر رہا ہے۔
کگل مین نے کہا کہ ماسکو کے ساتھ بیجنگ کے تعلقات مضبوط ہو گئے ہیں اور بیجنگ وسطی ایشیا میں روس کے ساتھ نئے تعاون کا خواہاں ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ملک افغانستان میں نئے چینی انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے ساتھ اس کا تصور کرنا آسان ہے۔
کگل مین نے کہا کہ پاکستان انڈیا سے پہلے وسطی ایشیا میں جانا چاہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا بھی علاقے میں اپنی تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے اور اس نے حال ہی میں فیصلہ کیا ہے کہ کابل میں سفارت خانہ دوبارہ کھولے گا جو کے اس بات کے نشاندھی کرتا ہے وہ وسطی ایشیا میں رسائی حاصل کرنے کے لیے سہولت فراہم کرے گا۔
جلالی نے کہا کہ وہ اب تک کے لیے وہ افغانستان کے حوالے سے پر امید ہیں اس لیے کہ انفراسٹرکچر کی ترقی ہمارے لوگوں کے لیے روزگار کے بہت سے راستے کھول دے گی۔ افغانستان کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، اور وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنا رہا ہے۔ جلالی نے کہا کہ ہمارا ملک سی پیک کی افغانستان تک توسیع کا خیرمقدم کرنے کے لیے تیار ہے کیونکہ وہ چین بی آر آئی کا حصہ بننا چاہتا تھا۔
ایک افغان آفسر نے کہا کہ درحقیقت علاقائی روابط اور اقتصادی انضمام ہمارے ملک کی جلد شروع ہونے والی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔
پیسہ کہاں ہے؟
تاہم، بڑا سوال یہ ہے کہ وسائل کی کمی کا شکار افغان حکومت مختلف رابطوں کے منصوبوں کی مالی معاونت کیسے کرے گی؟
اخباری رپورٹس کے مطابق، کئی عالمی بینک جن میں ایشیائی ترقیاتی بینک، یورپی بینک برائے تعمیر نو و ترقی، اسلامی ترقیاتی بینک اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک اور مالیاتی ادارے شامل ہیں نے دلچسپی ظاہر کی ہے، لیکن ٹرانس افغان ریلوے کے لیے تخمینہ شدہ پانچ ارب امریکی ڈالر کا وعدہ نہیں کیا ہے۔
جیسا کہ سات ارب امریکی ڈالر کے افغان اثاثے امریکی بینکوں میں منجمد ہیں، برنا ایسیفی کا اندازہ ہے کہ مالی معاونت ممکنہ طور زیادہ تر ان ممالک سے آئے گی جو اس منصوبے میں شریک ہیں۔
جلالی نے کہا کہ ظاہر ہے کہ افغانستان کے پاس پیسہ نہیں ہے لیکن وہ افرادی قوت مہیا کرسکتا ہے۔ ہمارے پڑوسی اب ہمارے انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرسکتے ہیں اور آنے والے برسوں تک فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔
برنا-ایسیفی کے مطابق بیجنگ افغانستان کے غیر دریافت شدہ وسائل اور نادر دھاتی عناصر کے حصول کی طرف بھی راغب ہے۔ 2010 میں افغانستان کے معدنی وسائل کی قیمت کا اندازہ امریکی حکومت نے ایک کھرب امریکی ڈالر لگایا تھا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اب ان کی قیمت کتنی ہے۔
کگل مین اس بات سے متفق ہیں کہ چین طویل عرصے سے افغانستان کے خام مال پر نظریں جمائے ہوا ہے۔ لیکن وہ سلامتی کے خدشات کی وجہ سے خود کو روکے ہوا ہے۔ سید نے کہا کہ نادر دھاتی عناصر سے فائدہ اٹھانے کے لیے چین افغانستان میں بے دھڑک سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار نہیں ہے جب تک کہ اسے اس ملک میں امن کی یقین دہانی نہیں ہو جاتی۔
سلامتی کے مسائل:
کگل مین نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کے زوال کے ساتھ سلامتی کے مسائل بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں اور یہ مناسب وقت نہیں ہے کہ اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ طویل مدتی رابطے کے منصوبوں کے بارے میں سوچا جائے۔
برنا-ایسیفی نے کہا کہ سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے افغانستان کے لیے مالیاتی اداروں سے قرض لینا مشکل ہے۔
سید نے پیشنگوئی کی کہ چین تحفظ اور سلامتی کو اقتصادی سرگرمیوں پر ترجیح دے گا۔ تحریک طالبان پاکستان، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (مغربی چین میں قائم ایک اُگیار اسلامی انتہا پسند تنظیم)، دولت اسلامیہ عراق و شام (جسے داعش بھی کہا جاتا ہے ) اور افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی کی وجہ سے علاقائی ترقی کے دروازے بند رہیں گے۔
برنا-ایسیفی نے کہا کہ افغانستان میں استحکام کے بغیر چین تھوڑی بہت سرمایہ کاری کر سکتا ہے اور طویل مدتی وعدے کر سکتا ہے لیکن وہ اس سے آگے نہیں بڑھے گا۔
کگل مین نے سید اور برنا-ایسیفی سے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ “چین مالی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہے گا اور افغانستان میں محتاط رہے گا۔”
لیکن یہ محتاط اندازے اقبال کو قائل کرنے میں ناکام رہے اور انہوں نے ان خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کسی قسم کے سکیورٹی کے مسائل نہیں ہیں۔
ماحولیاتی لاگت:
ایک اور سوال جو اس منصوبے پہ اٹھ رہا ہے وہ اس منصوبے کا ماحولیات پر اثر اور آب و ہوا کی لچک ہے۔ اگرچہ سی پیک کا واضح مقصد صاف توانائی کے منصوبوں کو آگے بڑھانا ہے، لیکن اس کا زیادہ تر حصہ پاکستان میں سیمنٹ، اسٹیل اور کوئلے پر مشتمل انفراسٹرکچر ہے۔ سی پیک کی توسیع کے حصے کے طور پر افغانستان میں ریلوے لائنوں اور سڑکوں کی تعمیر کا مطلب بھی اسی طرح کا ہو سکتا ہے۔ کگل مین نے نشاندہی کی کہ “افغانستان تمام جنوبی ایشیا کے ممالک کے طرح موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے خطرات بشمول خشک سالی کی زد میں ہے۔ لہٰذا اس بات پر فکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بڑے بڑے نئے ترقیاتی منصوبے افغانستان میں پانی کی کمی سے پیدا ہونے والے مسائل کو بڑھا سکتے ہیں۔
برنا-ایسیفی نے جولائی میں دی ڈپلومیٹ میں مقامی جغرافیائی خصوصیات کے چیلنجز پر نشاندھی کی ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے جس میں پینتیس سو میٹر کی بلندی پر سالنگ پاس سے گزرنے والا ایک راستہ بھی شامل ہے۔ انھوں نے لکھا کہ یہ اسے دنیا کی بلند ترین ریلوے لائنوں میں سے ایک بنا دے گا۔ سالنگ درہ سردیوں کے موسم میں شدید برف باری یا پھر برفانی تودے کا شکار ہوتا ہے جو طویل مدت کے لیے ریلوے کو غیر فعال کر سکتا ہے۔
پاکستان کے حالیہ تباہ کن سیلاب نے خطے میں آب و ہوا اور ماحولیاتی عوامل کا جائزہ لینے کی ضرورت کو جنم دیا ہے۔ تاہم، مبصرین نے طویل عرصے سے نشاندہی کی ہے کہ سی پیک منصوبوں نے ان پر شاذ و نادر ہی غور کیا ہے۔
ماحولیاتی وکیل احمد رافع عالم نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ سیلاب پاکستان اور سی پیک کے تمام منصوبوں کے ساتھ ساتھ افغانستان میں شروع کیے جانے والے تمام منصوبوں کو چونکا دینے والا اور اپنی طرف متوجہ کرنے والا واقعہ ہے۔ اس لیے ان ممالک کو بڑے منصوبوں کے لیے دیانت داری اور سختی سے ماحولیاتی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
مترجم: عشرت انصاری
ڈائیلاگ ارتھ ایک کثیرالزبان پلیٹ فارم ہے جو ہمالیہ کے آبی بہاؤ اور وہاں سے نکلنے والے دریاؤں کے طاس کے بارے میں معلومات اور گفتگو کو فروغ دینے کے لئے وقف ہے.