شہروں میں بارشیں اور سیلاب آتے ہیں لیکن ایسا کہاں ہوتا ہے کہ شہر بھر کی تمام سڑکیں خستہ حالی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں اور شہر میں لوگوں کے لئے آمدورفت ایک بہت مشکل عمل بن جائے؟ دوسری جانب بارشوں کے بعد صحت عامہ کے شدید معاملات ہوں کہ سارا شہر ہی بیماریوں کا شکار بن جائے۔
رواں سال مون سون میں اتنی بارشیں نہیں ہوئیں جن کی پیش گوئی کی گئی تھی مگر جب جب اور شہر کے جس علاقے میں بارش ہوئی وہاں شہری سیلاب کی سی کیفیت نظر آئی۔ پھر شہر کا سیوریج کا نظام ٹھپ ہو کر رہ گیا اور نتیجتاً گٹر ابل پڑے۔ 28 اگست 2020 کی بارش اور شہری سیلاب کو کراچی کے شہری آج تک بھلا نہیں سکے اور اب تو صورت حال یہ ہے کہ کراچی کے رہائشیوں نے اپنی املاک اور کاروبار کو پہنچنے والے وسیع نقصان کا تخمینہ لگانا ہی چھوڑ دیا ہے جو بارش اور شہری سیلاب کے باعث ہوتا ہے۔ مگر دوسری جانب یوں لگتا ہے کہ حکومتی شہری ادارے چین کی نیند سو رہے ہیں۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ گویا شہر کے 3 نالوں (گجر نالہ، اورنگی نالہ اور منظور کالونی نالہ) کو چوڑا کر کے وہ بری الزمہ ہو گئے تو گویا انہوں نے شہری سیلاب کے دیگر عوامل کو نظر انداز کر دیا اور ہم نے دیکھا کہ رواں سال بارشوں کے سبب شہر کی سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے تباہ ہو گئے۔ کہیں گہرے گڑھے بن گئے تو کہیں وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتے ہیں اور پیدل چلنے والوں اور گاڑیوں دونوں کے لیے ناقابل گزر ہو گئے۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور ساحلی شہر، اس وقت مون سون کی شدید بارشوں کے بعد بنیادی ڈھانچے کے تباہ کن بحران سے دوچار ہے۔ سیلاب نے جہاں شہر میں سڑکوں کے نیٹ ورک اور سیوریج کے نظام کی کمزوریوں کو عیاں کر دیا ہے وہیں شہر کے اداروں اور حکمرانی کے انداز پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ اس وقت کسی ادارے کے پاس کوئی اعدادوشمار نہیں کہ شہر کی کتنی اور کون کون سی سڑکیں اور شاہراہیں ایسی ہیں جو سیلاب، سیوریج کے بہاؤ اور برسوں کی نظر اندازی کا شکار ہو چکی ہیں؟ کراچی کے سات اضلاع میں سڑکوں کو پہنچنے والے نقصان کے باعث، مکینوں کو نقل و حرکت اور رسائی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
شہر میں ہونے والی معمول کی بارشوں نے کراچی کے نکاسی آب کے نظام کی اہم کوتاہیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم نے اس تیز رفتار شہرکاری سے نمٹنے کے لیے کیا جدوجہد کی ہے؟ شہر کے پھیلاؤ اور بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کیا ہیں؟ وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے کراچی کو ایک وسیع و عریض شہر میں تبدیل کر دیا ہے؟ ہم نے دیکھا کہ ناکافی منصوبہ بندی اور مؤثر انفراسٹرکچر کی کمی کے نتیجے میں کراچی کے تقریباً 80 فیصد تجارتی علاقے زیر آب رہے ہیں، جس سے ناصرف تاجروں کو اربوں کا نقصان ہوا بلکہ روزمرہ کی زندگی میں نمایاں رکاوٹیں آئیں۔ اداروں کو دیکھنا ہو گا کہ شہری کیسا شہر چاہتے ہیں؟ ورنہ عوام میں مایوسی مزید بڑھے گی کیونکہ پہلے ہی لوگ اداروں پر اعتماد نہیں کرتے تو شہری انتظامیہ کو ان بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے شہری سیلاب کے بعد بنیادی ڈھانچے کے تباہ کن بحران کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ یہ بحران شہر کے بلدیاتی نظام کی افادیت پر سوالیہ نشان ہیں جو اپنے رہائشیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں بار بار ناکام رہا ہے۔
حالیہ بارشوں سے درپیش چیلنجز کراچی کی گورننس (حکمرانی کے نظام) اور انفراسٹرکچر مینجمنٹ (بنیادی ڈھانچوں کے انتظام) کے ایک وسیع تر مسئلے کو اجاگر کرتے ہیں۔ برسوں کی ناکافی منصوبہ بندی و نگرانی کے نتیجے میں سڑکوں کا ایک غیر یقینی نیٹ ورک واضح ہوا ہے، شہر کی بہت سی سڑکیں بمشکل صورت حال کا مقابلہ کرنے کے قابل ہیں۔ گڑھے، دراڑیں تعمیر کے ناقص معیار کے واضح اشارے کے طور پر سامنے آئے ہیں جس نے شہریوں کو مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ حتی کہ 2022 میں جن سڑکوں کی قیاس کے مطابق مرمت یا تعمیر کی گئی تھی وہ بھی خستہ حالی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تعمیرات میں شامل ٹھیکیداروں سے ان کے کام کے معیار کے حوالے سے فوری جوابدہی کی جائے۔
ہم نے دیکھا کہ جیسے جیسے بارش کا پانی جمع ہوتا گیا، یہ بہتے ہوئے سیوریج کے نظام میں ضم ہوتا گیا اور گٹر ابلنا شروع ہو گئے جس سے غیر صحت بخش حالات پیدا ہوئے اور جس نے بہت سی سڑکوں کو ناقابل رسائی بنا دیا۔ کیونکہ ہمارے پاس بارش کے پانی کو سنبھالنے کا کوئی علیحدہ نظام موجود ہی نہیں جبکہ دنیا بھر میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے کئی طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں جس سے صاف پانی کی کمی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے مگر شہر کراچی میں جو صورت حال رہی اس کے نتائج نہایت سنگین تھے؛ پیدل چلنے والے اور موٹر سائیکل سوار، دونوں ان بارشوں میں اپنی صحت اور حفاظت کو خطرے میں ڈالتے ہوئے اسی پانی میں سے گزرنے پر مجبور تھے۔ اب بارش کے بعد کی صورت حال یہ ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی اور سیوریج کی بدبو کے امتزاج نے صحت عامہ کے سنگین مسائل کو جنم دیا اور بیماریوں کے پھیلاؤ کے لیے موزوں حالات ملے۔ یوں شہر میں ملیریا، چکن گونیا اور ڈینگی بھرپور طور پر پھیل گئے اور مکینوں کو اب ان بیماریوں کے پھیلاؤ کے سبب مشکل حالات کا سامنا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں یہ بیماریاں نہ پہنچی ہوں۔ ایسے حالات میں محکمہ صحت کیا کردار ادا کر رہا ہے؟
انتظامی سطح پر وزیر اعلیٰ سندھ نے اس بحران میں اہم کردار ادا کرنے والے غیر معیاری تعمیراتی طریقوں کی مکمل تحقیقات کی ضرورت کو تسلیم تو کیا ہے کیونکہ سڑکوں کی مرمت کے لیے اربوں کے عوامی فنڈز مختص کیے گئے تھے، لیکن اس کے باوجود اس میں سے زیادہ تر کام بے اثر ثابت ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان تعمیراتی کمپنیوں اور ٹھیکیداروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے یا یہ معاملہ صرف زبانی بیان تک محدود رہے گا؟ کیونکہ ماضی میں بھی ایسے کئی بیانات مختلف اداروں کے سربراہان کی جانب سے سامنے آئے مگر حقیقتاً ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آ سکی جس سے کراچی کے شہریوں میں مایوسی نظر آتی ہے۔ کیونکہ شہری بجا طور پر پائیدار انفراسٹرکچر کی توقع رکھتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں جیسے مون سون کی زیادہ بارشوں کو برداشت کرنے کے قابل ہو۔
شہر کے انفراسٹرکچر کی بحالی کی کوششوں کے لیے ناصرف فوری اصلاحات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے بلکہ مستقبل کی تعمیر کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے طویل مدتی حکمت عملیوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ اداروں کو کوالٹی کنٹرول کے سخت اقدامات کے نفاذ کی اشد ضرورت ہے، اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تمام انفراسٹرکچر (بنیادی ڈھانچوں) کے منصوبے قائم کردہ معیارات پر عمل پیرا ہوں۔ ہر منصوبے میں پی سی 4 یعنی منصوبے کی تکمیل کی رپورٹ کا آڈٹ بہت ضروری ہے تاکہ ٹھیکیداروں کے طریقوں اور ریگولیٹری نگرانی کی تاثیر کی مکمل چھان بین کے ساتھ ہی جوابدہی کو ترجیح دی جا سکے۔
بحالی کے منصوبے کے حصے کے طور پر، بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت کو تسلیم کرنا ضروری ہے جس میں سڑکوں کی مرمت کے ساتھ ساتھ نکاسی آب کے نظام کو اپ گریڈ کرنا بھی شامل ہو۔ کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مون سون کے موسم میں کراچی کو متاثر کرنے والے سیلابی مسائل کو کم کرنے کے لیے مؤثر نکاسی آب ضروری ہے۔ تو نکاسی آب کے مضبوط انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کر کے، شہر کے ادارے مستقبل میں ہونے والے بارش کے واقعات کے لیے بہتر طریقے سے تیاری کر سکتے ہیں اور سڑکوں کے نیٹ ورک کو پہنچنے والے نقصان کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔
مزید یہ کہ فنڈز کی تقسیم شفاف عمل کے ساتھ ہونی چاہیے جس میں خود مختار اداروں کی نگرانی شامل ہو۔ ساتھ ہی منصوبہ بندی اور نفاذ کے مراحل میں کمیونٹی سٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا مشترکہ ذمہ داری کے احساس کو فروغ دے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مرمت بنیادی ڈھانچے کی ناکامیوں سے براہ راست متاثر ہونے والے شہریوں کی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔