بارش اور کراچی: شہری حکمرانی اور نکاسی آب کا بہتر نظام ناگزیر

بارش اور کراچی: شہری حکمرانی اور نکاسی آب کا بہتر نظام ناگزیر
موسم گرما کی تیز لہروں کے درمیان   بارشوں کو 'باران رحمت' تصور کیا جاتا ہے لیکن جنوبی پاکستان کے بندرگاہی شہر کراچی کےشہریوں کے لیے  یہ بارشیں    زحمت سے بڑھ کر  مصائب و آلام    کا روپ دھار چکی ہیں کیونکہ  دو کروڑ  سے زائد آبادی کے اس شہر میں نکاسی آب کا نظام بدترین شکل اختیار کر چکا ہے جس کے سبب  ہر سال   مون سون کے موسم میں شہر کراچی کے مکین مختلف طرح کے اندوہناک واقعات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں. حد تو یہ ہے کہ معمولی سی  بارش  ہوتے ہی  سڑکیں اور متعدد علاقے گٹروں کی غلاظت  اور بارش  کے پانی پر مشتمل تعفن ذدہ پانی سے بھر جاتے ہیں  اور بڑے پیمانے پر ٹریفک جام ہو جانا تو گویا معمول کی بات ٹہرتی ہے۔ جیسے ہی بارش کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو شہر بھر سے   بجلی عنقا  ہوجاتی ہے  اور جو بارش ذرا تیز ہوجائے  تو شہر کی سڑکیں غرق آب  ہونے کے ساتھ لوگوں کے گھرگو یا  تالاب بن جاتے ہیں ۔

آج سے تیس سال قبل اسی شہر کراچی میں  دو سے تین  گھنٹے  مسلسل بارش ہونے کے باوجود   بھی   پانی کی نکاسی بہترین انداز میں  ہو جاتی تھی مگر اب ایسا ممکن نہیں- اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں  ، پہلی'  شہر کے  نکاسی آب  کے نظام کی بتدریج تباہی'  اور دوسری  'سڑکوں کی تعمیر میں   فن اور مہارت کا فقدان'

خیر اب بارشوں  کے نتیجے میں حادثات ، شہری سیلاب ، زیر آب سڑکیں ، ابلتے ہوئے  گٹر ، بجلی کی عدم دستیابی  اور ٹریفک جام ہونا   شہر کراچی کے مکینوں کے لیے اتنا تعجب خیز نہیں-  پچھلے سالوں میں نہ جانے کتنے افراد  بہہ جانے والے نالوں میں گرنے  سے ہلاک ہوگئے تو  درجنوں کراچی الیکٹرک کی نااہلی اور غفلت کے سبب کرنٹ لگنے کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے مزید یہ کہ شہر کے کئی رہائشی علاقوں میں تین سے چار فٹ پانی جمع ہوا  اور   معروف شاہراہوں پر ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ پیدا ہوئی  ۔مجموعی طور پر کتنا  جانی و مالی نقصان ہوا؟ اس کے اعدادوشمار کہیں دستیاب نہیں-انتظامیہ کی جانب سے بلند و بالا دعوے ضرور کیے گئے  مگرنتیجہ  کیا ہوا؟ کچھ نہیں-   کیونکہ  اس شہر میں حکومت نام کی کوئی شے موجود ہی نہیں--  صرف سیاسی بیانات ہیں اور الزام تراشیاں !

اگر ہم ماضی پر نظر دوڑائیں تو یہ  حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس شہر   کی پریشانیوں کا سلسلہ دراز   ہوتا جارہا ہے اور  شہریوں کو بارشوں کے ساتھ ہر سال  بدترین صورتحال کا سامنا ہے کیونکہ شہرکراچی میں نکاسی آب کا  نظام  ' ناکافی' ہوگیا ہے  اور اس کی بڑی   وجہ نالوں میں مٹی ، گارے  اور کوڑےکرکٹ  کا جمع ہونا  اور ان کی صفائی کا مناسب اور بروقت انتظام نہ ہونا ہے۔

کراچی میں 41 بڑے برساتی نالے ہیں جن کی صفائی  بلدیہ عظمیٰ کراچی  (کے ایم سی)  کی ذمہ داری ہے اسی طرح  510 چھوٹے  نالے شہر کراچی میں موجود ہیں جن کی صفائی بلدیہ عالیہ کراچی  ( ڈی ایم سیز)     شرقی، غربی، وسطی، کورنگی، ملیر اور جنوبی  کی ذمہ داری ہے۔مگر ساتھ ہی یہ ذمہ داری  کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی بھی ہے کیونکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈکی    نااہل انتظامیہ  ہی ہے جس نے شہر کے سیوریج کے نالوں کو برساتی نالوں میں ڈال دیا ۔بات یہیں تک محدود نہیں  سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈبھی  کراچی کے نالوں کی صفائی کا  ذمہ دار ہے کیونکہ یہ نااہل ادارہ کراچی کے کچرے کو اٹھانےاور تلف کرنے میں ناکام ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کراچی کا آدھا کچرا ان  نالوں کی زینت بن جاتا ہے-

کراچی کی اس تباہی و بربادی میں ہر سیاسی جماعت کا بھرپور کردار ملتا ہے جیسا کہ اس وقت    بلدیہ عظمیٰ کراچی  (کے ایم سی)  کے ساتھ ساتھ  بلدیہ عالیہ کراچی شرقی، غربی، وسطی اور کورنگی کا اختیار ایم کیوایم  پاکستان کے پاس ہےاسی  طرح بلدیہ عالیہ کراچی ملیر اور جنوبی کے ساتھ ساتھ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا اختیار پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ہے علاوہ ازیں اسی شہر کراچی میں  پاکستان تحریک انصاف کے اکیس ممبران صوبائی اسمبلی اورسولہ ممبران قومی اسمبلی  ہیں جس میں سے  دو ممبران وفاقی وزراء بھی ہیں۔  حد تو یہ ہے کہ صدر پاکستان اور سندھ کے گورنر بھی کراچی سے منتخب ہوئے اور بعد میں اپنی نشستیں خالی کردیں مگر نہ جانے ان سب کی آنکھوں پر کون سی پٹی بندھی ہوئی ہے؟ کہ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی  -

یہی وجوہات ہیں کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے مون سون کے تیسرے دورانیے کی پیش گوئی کے باوجود  وفاقی ، صوبائی اور شہری انتظامیہ  شہرکراچی  میں 'شہری سیلاب' کے دیرینہ مسئلے سے نمٹنے کے لئے انتظامات کرنے میں ناکام رہی۔یہ سب جانتے ہیں کہ یہ صورتحال شہری علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کا مطالبہ کرتی ہے کیونکہ  نالوں کی صفائی نہ ہونے کے سبب یہ  اپنی گنجائش کے مطابق پانی کا نکاس نہیں کر پاتے تو یہ پانی نالوں کے بجائے سڑکوں پر بہنے لگتاہے اور نالے کے پانی کے ساتھ مل کر  شہری آبادیوں میں داخل ہو جاتا ہے۔مگر نالوں کی صفائی کون کرے ؟

نالوں کے بعد دوسرا اہم معاملہ سڑکوں کی ناقص تعمیرات کا ہے اول تو کراچی میں یہ بہت مشکل  ہے  کہ کوئی  سڑک تعمیر کی جائے  بلکہ اتتظامیہ کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ  تعمیر کی بجائے مرمت سے کام چلا لیا جا ئے   یوں  شازو نادر ہی ہوتا ہے کہ سڑک کی تعمیر نو کا موقع آئے اور ایسا موقع آ بھی جائے  توسیاسی مفادات  کو سامنے رکھتے ہوئے  فن تعمیر کا وہ ماہر ڈھونڈ کر لایا جاتا ہے  جوایسی سڑک بناتا ہے کہ بنتے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج شہر  کراچی کی اکثر سڑکیں  نکاسی آب کے نظام سے منسلک نہیں  کیونکہ سڑکوں کی تعمیر میں اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا۔

یہ سیاسی چپقلش    اور آپس کی لڑائی کے سوا کچھ نہیں کہ  ماہرین موسمیات کے انتباہ کے بعد بھی بارش اور ممکنہ تباہ کاریوں  سے متعلق کسی بھی چیز کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور قلیل بارش  نے کراچی کے نکاسی آب کے نظام کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی جماعتوں کی انتظامی ناہلی کو بے نقاب کردیایہاں تک کہ لوگ اپنے گھروں میں محفوظ نہ رہ سکےتو  اپنی مدد آپ کے تحت خود ہی اس سے نمٹنے کے لئے مجبور ہوگئے کیونکہ متعلقہ حکام کی جانب سے شہر کی اذیت ناک حالت کو بہتر بنانے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا ۔

 اس شہر کے لئے اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات کیا ہوگی  کہ جب مسلسل  پانچ گھنٹوں تک بارش ہوئی تب بھی حکام کہیں نظر نہیں آئےاور یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ ہمارے صوبائی وزراء' کیک کا ٹنے 'کی تقریب میں مصروف تھے  کیونکہ ان کے نزدیک کراچی کا  ڈوبنا شاید اتنا سنگین معاملہ  نہیں ۔خیران بارشوں کے سبب ہی سہی مگر  ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوگئی کہ وفاقی ، صوبائی اور شہری انتظامیہ  اور سیاستدانوں کے لاپرواہ رویے  اور خراب  شہری طرز حکمرانی کی وجہ سےہی  آج کراچی کے عوام ان  مشکلات کا شکار ہیں اور شہر کراچی کو ایک با اختیار مقامی حکومت  کی ضرورت ہے-

 

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے