یہ ڈوبا ڈوبا سا کراچی ہمیشہ کیوں؟

یہ ڈوبا ڈوبا سا کراچی ہمیشہ کیوں؟
کراچی کی برسات ہمیشہ سے ایسے ہی کچھ حالات پیدا کرتی تھی لیکن گذشتہ چند سالوں سے سوشل میڈیا کے میدان میں آنے کے بعد سے اس کی حالتِ زار پر بحث اور بھی زیادہ ہونے لگی ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ کراچی پاکستان کی معاشی شہہ رگ اور اس کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ وہ شہر ہے جو حقیقی معنوں میں پاکستان کو چلاتا ہے۔ لیکن برسات اس شہر کو تیرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ چند گھنٹے کی بارش میں اس کا وہ حال ہوتا ہے کہ شہر وینس کا سماں پیش کرنے لگتا ہے۔

لیکن کراچی شہر کے باسیوں کے لئے اصل مشکل یہ ہے کہ یہاں کوئی شہر کو ٹھیک کرنے کو نہیں تیار۔ سب کے سب الزام ایک دوسرے کے سر ڈالنے پر تلے ہیں۔ ایم کیو ایم اور تحریکِ انصاف کے مدح پیپلز پارٹی پر غصہ نکالتے ہیں تو پیپلز پارٹی والوں کے پاس اپنی حجتیں ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تمام تر دعووں کے باوجود گذشتہ دو سال میں کراچی شہر سے 14 رکن قومی اسمبلی ہونے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کوئی ایک منصوبہ نہیں جس پر کام تکمیل کے مراحل میں ہو جو نکاسی آب یا شہر کے کسی بھی اور مسئلے کو حل کرنے کی نیت سے شروع کیا گیا ہو۔

اس سے قبل پانچ سال ملک پر پاکستان مسلم لیگ نواز حکومت کرتی رہی۔ مسلم لیگ نے کراچی کے آپریشن کا کریڈٹ تو خوب لیا لیکن جس طرح پنجاب میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا، افسوس کہ کراچی کے حوالے سے اس جماعت کی کبھی بھی وہ سیاسی اور انتظامی کمٹمنٹ نظر نہیں آئی۔ 90 کی دہائی میں بھی کراچی کا مسلم لیگ نواز سے یہی شکوہ تھا، اور گذشتہ پانچ برس بھی اس کا یہی شکوہ رہا کہ آخر کراچی کے ساتھ ویسا سلوک کیوں نہیں جیسا پنجاب کے ساتھ کیا جاتا ہے؟ اور کراچی کے شہریوں سے ایسی بے اعتنائی کیوں برتی جائے جو ان کا حق نہیں؟ یہ سچ ہے کہ مسلم لیگ نواز کو کبھی کراچی میں ویسی مقبولیت حاصل نہیں رہی جیسی ماضی میں ایم کیو ایم کو رہی ہے یا اس وقت پی ٹی آئی کو حاصل ہے۔ لیکن پنجاب میں بھی اس کی مقبولیت کا راز وہی سب کچھ تھا جو کراچی اس سے چاہتا تھا، اور یہ جماعت اس طرف توجہ دینے میں ناکام رہی۔

تیسری جماعت ہے ایم کیو ایم جس نے گذشتہ تین دہائیوں سے مسلسل کراچی سے مینڈیٹ حاصل کیا ہے۔ یہ کراچی شہر ہی تھا جس نے متحدہ کو ایک قومی سطح کی جماعت بنایا۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہی وجہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ صرف یہاں اور حیدر آباد کی چند نشستیں جیت کر قومی سطح کی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرتی آئی ہے۔ ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال جنہوں نے اب اپنی پاک سرزمین پارٹی بنا لی ہے، یہاں کے چار برس میئر رہے۔ اس دوران صوبے کے گورنر ایم کیو ایم ہی کے ڈاکٹر عشرت العباد تھے۔ ملک کے صدر جنرل پرویز مشرف تھے جن کا خود بھی تعلق کراچی سے تھا اور ایم کیو ایم قیادت کے بہت قریبی بھی سمجھے جاتے تھے۔ اور یہ تسلیم نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ مصطفیٰ کمال نے کراچی شہر میں بہت سے میگا پروجیکٹس شروع کیے جنہوں نے اس شہر کا انفراسٹرکچر جدید طرز پر استوار کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن جن دو چیزوں کا مسئلہ وہ بھی حل کرنے میں ناکام رہے، وہ ایک تو کراچی کا جرائم کا مسئلہ تھا اور دوسرا تھا بارش کے موقع پر نکاسی آب کا۔

سوشل میڈیا کے دور میں اطلاعات کا بہاؤ اتنا تیز ہے کہ لوگوں کو کل کی بات یاد نہیں رہتی۔ لیکن واقفانِ حال جانتے ہیں کہ مصطفیٰ کمال کے دور میں بھی بارش کے موقع پر کراچی سے ایسی ہی خبریں موصول ہوا کرتی تھیں جیسی آج کل ہو رہی ہیں کہ شاہراہ فیصل ڈوب گیا، نشیبہ علاقے زیرِ آب۔ گاڑیوں کے پانی میں تیرنے کی ویڈیوز تب ٹی وی چینلز پر چلتی تھیں لیکن اب یہ کام citizen journalism کی صورت میں عوام نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ یہاں تک کہ ٹی وی چینل بھی سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز ہی کی مدد سے رپورٹنگ کر پا رہے ہیں۔ خبر کا عوام تک پہنچنے کا طریقہ بھلے بدل گیا ہو، خبر آج بھی وہی ہے، کہ کراچی شہر کی سڑکیں دریا کا منظر پیش کرنے لگیں اور نشیبی علاقے زیرِ آب۔

چوتھی جماعت جس نے اس شہر سے گذشتہ کئی برسوں سے سوتیلی اولاد جیسا سلوک کیا ہے، وہ ہے پاکستان پیپلز پارٹی۔ پیپلز پارٹی کبھی بھی کراچی کی مقبول ترین جماعت نہیں رہی۔ جب ایم کیو ایم کا وجود بھی نہ تھا، تب بھی کراچی کے شہری جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کو ووٹ دیا کرتے تھے۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کے لئے مقبولیت کی چند pockets ہی ہمیشہ سے رہی ہیں جو ابھی بھی کچھ حد تک برقرار ہیں، لیکن 2018 انتخابات میں پی ٹی آئی کے ایک ورکر نے بلاول بھٹو زرداری کو لیاری سے شکست دے کر ثابت کر دیا ہے کہ یہ علاقے بھی اب کراچی کے شہری مسائل کا حل چاہتے ہیں اور محض شخصیت یا پارٹی سے تعلق کی بنیاد پر ووٹ اب نہیں دیا جائے گا، بلکہ حکمرانوں کو کچھ کر کے دکھانا پڑے گا۔

کراچی قریب دو کروڑ نفوس پر مبنی ایک شہر ہے۔ اور اس کا یوں ایڈ ہاک انداز میں چلایا جانا انتہائی زیادتی کی بات ہے۔ اس شہر کی ایک مکمل انتظامی حکومت ہونی ضروری ہے اور پیپلز پارٹی یہ حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ بلدیاتی نظام کے ذریعے ہی کراچی میں ڈلیور کیا جا سکتا ہے۔ طاقت کی نچلی سطح تک عوام کو منتقلی ہی ان مسائل کا حل ہے اور انتظامی امور بھی انہی حقیقی عوامی نمائندوں کے سپرد کرنا ہوں گے۔ ’مرسوں مرسوں کراچی نہ ڈیسوں‘ کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اگر آپ کراچی کے شہریوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہیں تو پھر وہ ایک انتظامی یونٹ کا مطالبہ کرنے میں بھی حق بجانب ہیں۔ اور اگر آپ ان کے یہ مسائل حل کر دیں گے تو کسی کو نئے انتظامی یونٹ کا خیال نہیں آئے گا۔ ساری بات گورننس کی ہے، اور 12 سال سے اقتدار میں ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی نہ نکاسی آب کا مسئلہ حل کر سکی ہے، نہ کوڑے کا، اور نہ ہی بجلی کا۔

موجودہ حکومت کے سربراہ تو کے الیکٹرک کے مالک ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی کے ساتھ بہت قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کراچی 20، 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ برداشت کر رہا ہے اور حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

آخر میں میڈیا کے کردار پر بھی ایک نظر ڈالی جانا ضروری ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کراچی شہر کی بارش کو تو یوں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے گویا ملک کے باقی تمام شہروں میں یہ مسئلہ کئی سالوں سے حل ہو چکا ہو لیکن پشاور اور لاہور میں یہی کچھ ہو رہا ہو تو میڈیا کی رپورٹنگ بالکل مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً جیو نیوز پر لاہور کی بارش کی خبر تو یوں چلتی ہے کہ بارش کے بعد گرمی کا زور ٹوٹ گیا۔ لیکن کراچی کی خبر اسی چینل کے مطابق اس ہیڈ لائن کے ساتھ چلائی جاتی ہے کہ طوفانی بارش نے کراچی کو ڈبو دیا۔

جب میڈیا ایسے واضح انداز میں دوئی یا تعصب کا مظاہرہ کرتا ہے تو پھر چودھری منظور گجر بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ایک نظر ادھر بھی۔

https://twitter.com/ch_manzoorahmed/status/1287631902485237760?s=12

لاہور کی اورنج لائن میٹرو ٹرین کے پل کے نیچے سے گزرتے یہ شہری دہائی دیتے ہیں کہ کیا ہماری خبر چلانا میڈیا پر واجب نہیں؟

https://twitter.com/omar_quraishi/status/1287747296369704960

صحافی عمر قریشی کی جانب سے ٹوئیٹ کیے گئے یہ مناظر بھی لاہور ہی کے ہیں۔

https://twitter.com/TofiqueBhatti10/status/1287667119690137600

اور یہ ذرا پشاور ریلوے سٹیشن کے حالات پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ حالات کو ٹھیک کرنا یقیناً حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن سچ بولنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اور اگر میڈیا یہ کام نہیں کرے گا، تو سیاسی جماعتوں میں تو اعتماد کی کمی واضح طور پر دیکھی جا ہی سکتی ہے، عوام میڈیا پر بھی بھروسہ کرنے سے کترائیں گے۔